جرمنی میں تشدد پسند نوجوانوں کی سماجی تربیت پر زور
7 نومبر 2013یعنی تشدد میں ملوث نوجوانوں کو قید کی سزا سنانے کی بجائے ان کی سماجی تربیت پر زور دیا جا رہا ہے۔ تاہم جرمنی میں نوجوانوں کے امور کے سب سے سخت مانے جانے والے جج آندریاس میولر کا کہنا ہے کہ تشدد میں ملوث نوجوانوں کو کبھی کبھی قید کی سزا سنانا ضروری ہوتا ہے اور اکثر کیسز میں یہ سزا مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ جرمن جج کے ان بیانات سے جرمنی میں سیاسی سطح پر اس موضوع پر پھر سے گرما گرم بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا جیلیں تشدد میں ملوث نوجوانوں کے لیے عبرت کا مقام ہو سکتی ہیں ؟
برلن کے ایک نواحی علاقے بیرناؤ کی عدالت کے ایک ہال کے باہر لائن سے 12 جوڑے Jump Boots رکھے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس ہال کے اندر جرمنی کے نوجوانوں کے امور کے سب سے سخت مانے جانے والے جج آندریاس میولر جج کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور ان کے سامنے نیو نازی نوجوان شدت پسند کھڑے ہیں۔ جج میولر اپنا گاؤن زیب تن کیے رہتے ہیں اور جب وہ عدالت کے ہال میں داخل ہوتے ہیں تو وہاں موجود افراد کو تعظیماً کھڑے ہونا پڑتا ہے۔ یہ سب اُس ڈسپلن یا نظم و ضبط کا حصہ ہے جس کی تربیت آندریاس میولر نوجوانوں کو دینا چاہتے ہیں۔ جج میولر تشدد پسند نوجوانوں کی تربیت سے متعلق اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں،’’ بنیادی طور پر میں یہ نہیں چاہتا کہ نوجوانوں کو جیل بھیجا جائے۔ تاہم کبھی کبھی یہ ضروری ہو جاتا ہے۔ جرم کے مرتکب نوجوان کو کبھی کبھی یہ واضح الفاظ میں کہنا پڑتا ہے کہ اگر تم نے اپنے حدود سے تجاوز کیا تو تمہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ جب یہ بات دیگر نوجوانوں تک پہنچے گی تو انہیں اندازہ ہوگا کہ جج اپنے موقف میں سنجیدہ ہیں‘‘ ۔
اس خیال کے برعکس جرمن صوبے لوور سکسنی کے جرائم سے متعلق ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماہر کرسٹیان فائفر کا کہنا ہے کہ تشدد پسند نوجوانوں کو جیل کا خوف دلانے کا عمل شاید ہی کبھی کار آمد ثابت ہوا ہو۔ کرسٹیان فائفر کی ٹیم نے ایک سروے کیا جس میں جیل میں قید 6000 نوجوانوں سے سوالات کیے گئے۔ اس کے نتائج سے پتہ چلا کہ گزشتہ چار ہفتوں کے دوران ہر تیسرا قیدی تشدد کا نشانہ بنا ہے۔ کرسٹیان فائفر کے بقول، ’’جیلیں تشدد کی سب سے بڑی تربیت گاہیں ہیں نہ کہ تشدد سے بچاؤ کی جگہ۔ جیلوں میں اکا دُکا نوجوان قیدی تربیت اورعلاج سے مستفید ہوتے ہیں جبکہ اکثریت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں‘‘ ۔
تاہم جج آندریاس میولر اور جرائم سے متعلق امور کے ماہر کرسٹیان فائفر اس امر سے اتفاق کرتے ہیں کہ تشدد پسند نوجوانوں کی ہلکی پھلکی سزاؤں کی مدد سے بہتر تربیت کی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر انہیں یہ کہا جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ شام کے آٹھ بجے تک گھر سے باہر رہ سکتے ہیں اور اُس کے بعد انہیں ہر حال میں گھر پر رہنا ہوگا۔ انہیں نہ تو کنسرٹس نہ ہی شراب خانوں کی طرف رُخ کرنے کی اجازت ہوگی۔