جرمنی میں تارکین وطن کی جانب اپنائیت کے جذبے کا فروغ
22 جولائی 2013خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ستمبر میں شیڈول انتخابات اس پالیسی پر بڑی حد تک اثر انداز ہورہے ہیں۔ عطا اچرداس ایک نوجوان ترک ڈاکٹر ہیں، جسے محض دو مہینوں کے اندر اندر جرمنی آنے کا ویزہ دے دیا گیا۔ روئٹرز کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عطا نے بتایا کہ ویزہ افسران ان کے ساتھ انتہائی خوش اخلاقی سے پیش آئے۔ واضح رہے کہ جرمنی میں اس وقت بسنے والا ہر پانچواں شخص جبکہ اسکول میں پڑھنے والا ہر تیسرا بچہ تارک وطن پس منظر کا حامل ہے۔
برلن حکومت نے رواں ماہ چالیس فیصد امیگریشن قوانین کو نرم کیا ہے اور ایسے نیم ہنرمند افراد کے لیے ویزوں کے اجراء میں بھی نرمی کی ہے جو افرادی قوت کی کمی کے شکار شعبوں میں کام آسکتے ہیں۔ ان شعبوں میں ریلوے اور بجلی کے شعبے قابل ذکر ہیں۔
جرمنی میں دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں معاشی صورتحال خاصی مستحکم ہے۔ بے روزگاری کی شرح جرمن اتحاد کے بعد کی نچلی ترین سطح پر ہے۔ برلن حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2025ء تک ملک کو پچاس لاکھ سے زائد اضافی ہنرمندوں کی ضرورت پڑے گی۔
چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی نے ایک دہائی قبل انتخابی مہم میں ’کنڈر شٹاٹ انڈر‘ یعنی ’’بھارتی باشندے نہیں بلکہ مزید مُلکی بچے‘‘ کا نعرہ لگایا تھا۔ اب چانسلر کے خطابات میں تارکین وطن کی جانب ’ویلکم کلچر‘ کی بات سننے کو ملتی ہے۔
تارکین وطن کے امور کے ماہر تھوماس لیبش Thomas Liebig کے بقول برلن حکومت امیگریشن کو فروغ دینے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے کیونکہ بظاہر جرمنی تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی OECD کے رکن ممالک میں آبادی کے خدوخال کے حوالے سے بدترین حالت کا شکار ہے۔ ’’ویلکم کلچر‘‘ سے متعلق گفت وشنید دراصل اس جامع عمل کا حصہ ہے، جس کا مقصد جرمنی کو ایسے ملک کے طور پر پیش کرنا ہے جس کے لیے مائیگریشن معمولی بات ہو۔‘‘
OECD کے اعداد و شمار کے مطابق سال 2011ء میں تین لاکھ لوگ طویل مدت کے لیے جرمنی آ بسے، جن میں سے اکثریت کا تعلق یورپی یونین کی رکن ریاستوں سے تھا۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق براعظم کے مشرقی حصے بالخصوص پولینڈ سے تھا۔
روایتی طور پر جرمن حکام معاشی مقاصد کے لیے تَرک وطن کرنے والوں کے ساتھ سرد مہری کے حوالے سے خاصے بدنام رہے ہیں۔ روئٹرز کے مطابق دوسری عالمی جنگ کی تباہ حالی کے بعد جو ہزاروں تارکین وطن یونان، ترکی اور اٹلی سے 60ء کی دہائی میں تعمیر نو کے لیے یہاں آئے تھے انہیں زبان سکھانے اور ان کے جرمن معاشرے میں انضمام پر توجہ نہیں دی گئی اگرچہ ان میں سے بیشتر نے یہ کام کیا۔
جرمنی میں آجروں کی تنظیم BDA کے رہنما پیٹر کلیور تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی کئی دہائیوں تک حکام پر زور دیتے رہے کہ تارکین وطن کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔ اس وقت صورتحال مختلف ہے۔
ہسپانوی شہری یان ساباٹر وینالس کو مالیاتی مسائل کے شکار اپنے آبائی وطن کے مقابلے میں یہاں ملازمت کے کئی مواقع دستیاب ہیں۔ وینالس کو ہوٹل مینیجمنٹ کورس کے لیے باآسانی داخلہ مل گیا تھا۔
کچھ تارکین وطن پرشکوہ
یورپی شہریوں کے مقابلے میں غیر یورپی تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد زمانے بیتنے کے باوجود خود کو یہاں اجنبی محسوس کرتی ہے۔ دارالحکومت برلن میں ایک بیکری کے مالک ترک نژاد جرمن شہری بارس ییزلداگ کے بقول وہ جرمنی میں پیدا ہوا ہے مگر اسے کبھی جرمن نہیں سمجھا گیا۔ اقوام متحدہ بھی جرمن حکومت پر بالخصوص ہاؤسنگ کے شعبے میں تارکین وطن سے امتیازی سلوک پر تنقید کر چکی ہے، جس کے باعث ملک کے مختلف حصوں میں تارکین وطن کی مخصوص اور علیٰحدہ آبادیاں قائم ہوگئیں ہیں۔ سرکاری ملازمتوں اور میڈیا میں بھی تارکین وطن کی نمائندگی خاصی کم ہے۔
روئٹرز کے مطابق جرمن چانسلر کو ’ویلکم کلچر‘ کو فروغ دینے کے لیے اپنے قدامت پسند جرمن حامیوں کی مخالفت سہنی ہوگی، جو روایتی طور پر تارکین وطن کے مخالف رہے ہیں۔