1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں ایسٹر کے موقع پر سخت لاک ڈاؤن

23 مارچ 2021

جرمنی میں وفاقی اور ریاستی رہنماؤں نے ایسٹر کی تعطیلات کے دوران سخت ترین لاک ڈاؤن پر اتفاق کر لیا ہے۔ جرمن چانسلر کا کہنا ہے کہ وائرس کی نئی قسم کی وجہ سے، ''ہمیں نئی وبا کا سامنا ہے۔''

https://p.dw.com/p/3qzB6
Deutschland | Nach Beratungen von Bund und Ländern | Bundeskanzlerin Angela Merkel | Pressekonferenz
تصویر: Michael Kappeler/REUTERS

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے منگل 23 مارچ کے روز اعلان کیا کہ جرمنی میں نافذ موجودہ لاک ڈاؤن میں 18 اپریل تک کی توسیع کی جا رہی ہے۔ اس کے تحت ملک میں یکم اپریل سے پانچ اپریل تک یعنی ایسٹر کی تعطیلات کے دوران،  پہلے سے بھی زیادہ سخت بندشیں عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس دوران روزمرہ گھریلو ضروری اشیاء کے اسٹور سمیت تقریبا ًسبھی دکانیں بھی بند رہیں گی۔

اس سلسلے میں جرمنی کی سولہ ریاستوں کے رہنماؤں اور چانسلر انگیلا میرکل کے درمیان کافی گہری اور طویل بات چیت ہوئی جو منگل کی علی الصبح ختم ہوئی۔

جرمنی میں کورونا وائرس سے متاثرین کے کیسز میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ حکام کو ایک بار پھر سے اس بات کا خدشہ لاحق ہے کہ کہیں ہسپتالوں میں 'انٹینسیو کیئر یونٹ' (آئی سی یو) کی کمی نہ لاحق ہو جائے۔ جرمن چانسلر نے اسی مناسبت سے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی کو کورونا کی، ''تیسری لہر کی تیز رفتار نمو کو توڑنے کی ضرورت ہے۔''

اس ماہ کے اوائل میں ریاستی رہنماؤں نے احتیاطی تدابیر کے ساتھ بتدریج لاک ڈاؤن کو ختم کرنے پر اتفاق کیا تھا تاہم منگل کے روز کا یہ فیصلہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

جرمنی: تین ماہ سے سیلونز بند، ہیئر ڈریسر مالی امداد کے منتظر

نئے اقدامات کیا ہیں؟

مسیحیوں کے معروف مذہبی تہوار ایسٹر کے موقع پر پانچ دن بند کے دوران گرجا گھروں سے اپنی سروسز آن لائن مہیا کرنے کو کہا جائے گا۔

اس پانچ روزہ چھٹی کے دوران دو مختلف گھروں کے پانچ سے زیادہ افراد کو ایک ساتھ ملنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس دوران کورونا جانچ اور ویکیسین لگوانے کے مراکز مسلسل کھلے رکھے جا سکتے ہیں۔

 عوامی اجتماعات پر مکمل پابندی عائد رہے گی۔ پانچ روز ہ چھٹی کے دوران تقریباً تمام دکانیں اور اسٹور بند رہیں گے۔ روزمرہ گھریلو ضرورت کی اشیاء کی دکانوں کو صرف تین اپریل تک کھلے رہنے کی اجازت ہے۔

کوئی بھی جرمن شہری جو بیرون ملک میں ہو اسے جرمنی واپسی کے لیے فلائٹ لینے سے پہلے اپنا کورونا ٹیسٹ کروانا لازمی ہوگا۔

قومی سطح پر موجودہ لاک ڈاؤن میں 18 اپریل تک کی توسیع کر دی گئی ہے جبکہ پہلے اس لاک ڈاؤن کو 28 مارچ تک کے لیے ہی نافذ کیا گیا تھا۔

 نئے اعلان کے مطابق اگر کسی علاقے میں تین دن تک مسلسل سو سے زیادہ متاثرین پائے گئے تو اس خاص علاقے میں اور زیادہ سخت بندشیں عائد کی جائیں گی۔ اس دوران تمام میوزیم، آرٹ گیلریزی اور کھیل کے دیگر مقامات مکمل طور پر بند رہیں گے۔

میرکل نے کیا کہا؟ 

پریس کانفرنس میں چانسلر انگیلا میرکل نے کہا کہ ملک میں کورونا وائرس کی نئی قسم کے پھیلاؤ کی وجہ سے، ''ہم ایک بہت ہی سنگین صورتحال میں ہیں۔'' ان کا کہنا تھا کہ جرمنی اس وقت اپنی آبادی کو کورونا وائرس کے خلاف ویکسین لگانے کی سمت میں بہت تیزی سے کام کر رہا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ چونکہ جرمنی ابھی تک کورونا وائرس کو مات نہیں دے پایا اس لیے کووڈ 19 کے خلاف عائد پابندیوں کو بھی نہیں ہٹایا جا سکا۔

 انہوں نے کہا، ''تیزی سے بڑھتے ہوئے انفیکشن کے رجحان کی روشنی میں، اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ لاک ڈاؤن کو بتدریج کھولنے سے پہلے واقعات پر مبنی ایمرجنسی اقدامات کیے جائیں اور ان اقدامات پر مستقل طور پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔''

مکمل لاک ڈاؤن سے کام نہیں چلے گا

جرمن پارلیمان میں صحت سے متعلق کمیٹی کے ترجمان انڈریو اولمان نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ گزشتہ برس کے اوائل میں جس طرح کے لاک ڈاؤن کا نفاذ کیا گیا تھا اس سے اب کوئی کام نہیں بننے والا کیونکہ عام لاک ڈاؤن سے لوگ ایک طرح سے عاجز ہو چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ''مجھے جس بات پر تشویش ہے وہ یہ ہے کہ ہم عوام کا خیال کیے بغیر ایک لاک ڈاؤن سے دوسرے لاک ڈاؤن کی جانب دوڑ رہے ہیں۔''

 انفیکشن کی شرح میں تیزی سے اضافہ

جرمنی کے رابرٹ کوخ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق گزشتہ سات دنوں کے دوران انفیکشن کی شرح ایک سو سات یعنی سو سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ اس شرح سے انفیکشن کا مطلب یہ ہے کہ اسپتالوں میں مریضوں کے بھرتی کے لیے جلد ہی گنجائش باقی نہ رہے گی۔

پیر کے روز جرمنی میں کورونا کے متاثرین کی تعداد میں سات ہزار 709 کا اضافہ ہوا اور اس طرح ملک میں متاثرین کی مجموعی تعداد 26 لاکھ 67 ہزار 225 تک پہنچ گئی۔ اب تک تقریباً75 ہزار افراد اس وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز) 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں