1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں ’داعش‘ نظریات کے حامل  گھرانوں کے بچے

3 اکتوبر 2018

اسلامک اسٹیٹ کا ساتھ دینے والے کئی افراد جرمنی واپس آ چکے ہیں، خاص طور پر ریاست رائن لینڈ ویسٹ فیلیا میں۔ آئینی تحفظ کا ریاستی ادارہ خواتین اور بچوں کے شدت پسندی کی جانب راغب ہونے کی وجہ سے پریشان ہے۔

https://p.dw.com/p/35vbC
Salafist - Deutschland
تصویر: Imago/Reporters/M. Meuris

ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے آئینی تحفظ کے ادارے کے سربراہ برکہارڈ فرائر نے بتایا کہ مشرق وسطیٰ ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ يا داعش کا ساتھ دے کر جرمنی واپس آنے والے قومی سلامتی کے ليے ایک بڑا خطرہ ہیں کیونکہ ان میں سے کئی جنگی تجربہ حاصل کر چکے ہیں۔ فرائر نے کہا، ’’انہیں جرمنی سے باہر دہشت گردانہ نیٹ ورک بنانا اور اسے چلانا آتا ہے۔‘‘

فرائر مزید بتاتے ہیں کہ جرمنی واپس آنے والوں میں سے کچھ افراد صدمے کا شکار ہیں تو کچھ کے خواب اور مستقبل کے ارادے چکنا چور ہو چکے ہیں تاہم اس کے باوجود زیادہ تر کٹر سلفی نظریات پر عمل پیرا ہیں اور اس نیٹ ورک میں فعال بھی ہیں۔

آئینی تحفظ کے وفاقی جرمن ادارے کے اندازوں کے مطابق جرمنی سے تقریباً ایک ہزار افراد اسلامک اسٹیٹ کے زیر اثر علاقوں میں گئے تھے۔ شدت پسندی کے خاتمے کے لیے کام کرنے والے ماہر نفسیات احمد منصور کی رائے میں جرمنی سے جانے والے شہریوں کی اصل تعداد اس سے دگنی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ داعش کے ليے لڑتے وقت ڈیڑھ سو کے قریب جرمن شہری ہلاک بھی ہوئے اور تقریباً تین سو واپس جرمنی پہنچ چکے ہیں۔

حکام کے مطابق مستقبل میں آئی ایس کے مزید ارکان واپس جرمنی آئیں گے۔ جرمنی میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں سلفی مسلمان ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

جرمنی ميں سلفی مسلمانوں کی تعداد تين ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان تین ہزار میں سے تقریباً آٹھ سو کو خطرہ یا ’تشدد پر آمادہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ان میں سے تقریباً ایک چوتھائی یا پچیس فیصد خواتین ہیں۔ خواتین سلفی نظریات کی تشہیر میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں کیونکہ ان کے ذریعے سوچ بچوں تک پہنچ رہی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ واپس آنے والے خواتین اور بچوں کے ساتھ جرمن معاشرے کوکیسا سلوک روا رکھنا چاہیے؟ برکہارڈ فرائر نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ 2018ء کے آغاز سے واپس آنے میں مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ زیادہ تر مرد جیلوں میں قید ہیں جبکہ کچھ اسلامک اسٹیٹ کے زیر اثر علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

ان کے بقول ایک بڑا خطرہ یہ ہے کہ یہ خواتین اپنے بچوں کی تربیت ان نظریات کی بنیاد پر کر رہی ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں بچوں کے گیت نہیں سنائے جاتے۔ بچوں کو کنڈر گارٹن نہیں بھیجا جاتا اور یہ لوگ الگ تھلگ رہ کر اپنی دنیا میں ہی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس صورتحال میں سلفیوں کی ایک نئی نسل تیار ہو رہی ہے۔ 

لڑائی کے میدان میں اسلامک اسٹیٹ کو تقریباً پسپائی حاصل ہو چکی ہے۔ اپنے عروج کے دور میں سلفی نظریات رکھنے والی یہ تنظیم عراق اور شام کے اتنے بڑے علاقے پر قابض تھی، جس کا رقبہ برطانیہ سے بھی زیادہ بنتا تھا۔ ابو بکر البغدادی کی خود ساختہ خلافت کا ساتھ دینے کے لیے دنیا بھر سے لوگوں نے ان علاقوں کا رخ کیا تھا۔

ڈوئچے ویلے نے جب برکہارڈ فرائر سے جب یہ پوچھا کہ اگر کوئی شخص اس صورتحال سے باہر آنا چاہے تو یہ مرحلہ کس قدر مشکل ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ اس مقصد کے لیے مختلف پروگرامز ہیں۔ یہ دو مختلف قسم کے ہیں۔ ان میں سے ایک میں کٹر نظریات کے چنگل سے آزاد کرانا مقصود ہوتا ہے جبکہ دوسرے میں متعلقہ شخص کو دوبارہ سے معاشرے میں ضم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس طرح شدت پسندی سے دور ہٹنے والے کو لازمی طور پر جمہوری معاشرے میں رہنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔

جرمنی کا داعش کے خلاف فوجی کارروائی میں شرکت کا فیصلہ