1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی ميں تارکين وطن، امکانات اور خطرات

16 جنوری 2013

جرمنی ميں تارکين وطن کی آمد ميں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے فائدے بھی ہيں اور خطرات بھی۔

https://p.dw.com/p/17L70
تصویر: Getty Images

پچھلے سال جرمنی کی آبادی ميں کافی اضافہ ہوا۔ ليکن اس کی وجہ زيادہ بچوں کی پيدائش نہيں تھی بلکہ يہ کہ پچھلے سال ملک ميں آنے والے تارکين وطن کی تعداد غير معمولی طور پر زيادہ رہی۔ يہ رجحان جرمنی کے ليے امکانات بھی رکھتا ہے اور خطرات بھی۔

جرمنی دنيا کے بہت سے ممالک سے آنے والے تارکين وطن کے ليے ايک پرکشش منزل ہے۔ خاص طور پرجنوبی اور مشرقی يورپ کے يورپی يونين ميں شامل ممالک سے ملازمت کے متلاشی افراد بڑی تعداد ميں جرمنی کا رخ کر رہے ہيں۔ يہ ان کے ليے آسان ہے کيونکہ يورپی يونين کا رکن ہونے کی وجہ سے وہ ويزہ کے بغير جرمنی آ سکتے ہيں۔

پچھلے سال جرمنی آنے والوں کی تعداد ملک چھوڑنے والوں کے مقابلے ميں 30 ہزار زيادہ تھی۔ ملک کے وفاقی دفتر شماريات کے مطابق جرمنی کی مجموعی آبادی 82 ملين ہو گئی ہے۔

جرمنی ميں پولستانی اشيائے خوردو نوش کی ايک دکان
جرمنی ميں پولستانی اشيائے خوردو نوش کی ايک دکانتصویر: DW/P. Oseka

جرمنی آنے والوں ميں سے زيادہ تر کولون، فرينکفرٹ اور ميونخ جيسے بڑے شہروں ميں آباد ہوتے ہيں۔ ديہی علاقوں ميں تارکين وطن کی تعداد ميں مشکل ہی سے کوئی اضافہ ہوا ہے۔

يونان، اسپين اور بلغاريہ کے بہت سے شہريوں کو صرف جرمنی ہی ميں روزگار ملنے کی اميد دکھائی ديتی ہے۔ ان کے اپنے ممالک ميں بہت زيادہ بے روزگاری ہے اور صورتحال جلد بہتر ہونے کی کوئی اميد نظر نہيں آتی۔ ليکن آنے والوں کو اس پر مايوسی ہوتی ہے کہ انہيں جرمنی ميں ہاتھوں ہاتھ نہيں ليا جاتا ہے۔ جرمنی کے آبادی اور ترقی کے انسٹيٹيوٹ کے اشٹيفن کرئنرٹ کے خيال ميں ملک ميں خوش آمديد کہنے کا ايک نيا کلچر وجود ميں آنا چاہيے۔ انہوں نے کہا: ’’جرمنی نے ماضی ميں اکثر خود کو بقيہ ممالک سے الگ تھلگ کيا۔ ليکن آج اُسے تعليم اور تربيت يافتہ افراد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے ميں ضروری ہے کہ يہاں آنے والے افراد کی ڈگريوں کو جرمنی ميں آسانی سے تسليم کر ليا جائے۔ جرمنی کو جن تارکين وطن کی واقعی ضرورت ہے انہيں مختلف قسم کے کاغذات اور تصديق ناموں کے ليے گھنٹوں سرکاری دفاتر ميں انتظار نہ کرنا پڑے اور متعلقہ اہلکار انہيں صرف ايک نمبر کی حد تک محدود نہ کر ديں۔

تارکين وطن کارکن: عام خيال يہ ہے کہ مسلمان جرمن معاشرے ميں ضم نہيں ہو رہے
تارکين وطن کارکن: عام خيال يہ ہے کہ مسلمان جرمن معاشرے ميں ضم نہيں ہو رہےتصویر: Getty Images

تارکين وطن کی جو موجودہ لہر ہے وہ انجينيئروں، تعليم يافتہ اور ہنرمند افراد کو جرمنی لا رہی ہے۔ اس سے کارخانوں، فرموں اور اداروں اور پورے معاشرے کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ اشٹيفن نے کہا کہ جرمنی کو صرف اعلٰی تعليم يافتہ افراد کی ضرورت نہيں ہے، مثلاً مريضوں اور بوڑھے افراد کی ديکھ بھال کے ليے معمولی تعليم يافتہ افراد کی جرمنی ميں اب بہت ضرورت ہے۔

جرمنی آنے والوں کو جرمن زبان سيکھنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ليکن ظاہر ہے کہ ايک ڈاکٹر کو جرمن زبان جس سطح کی آنا چاہيے وہ ايک سائنسدان يا نرس کی سطح سے مختلف ہو گی۔

يورپی يونين کے ممالک سے جرمنی آنے والے تارکين وطن جرمن معاشرے ميں بہتر طور پر ضم ہو سکتے ہيں اور وہ عام کلچر سے الگ ايک ذيلی کلچر کو جنم نہيں ديں گے جس کا امکان مثال کے طور پر مسلمان تارکين وطن کی آمد سے ہوتا ہے۔

ليکن ايک پہلو يہ بھی ہے کہ جنوبی اور مشرقی يورپ کے ممالک سے تعليم يافتہ افراد کے جرمنی آنے سے جرمنی کو تو فائدہ ليکن ان ملکوں کو نقصان ہوگا کيونکہ لمبی مدت کے لحاظ سے وہاں ملکی ترقی کے ليے ضروری تعليم يافتہ اور ہنر مند افراد کی قلت پيدا ہو جائے گی۔

جرمنی ميں اس پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ اگر اگلا اقتصادی بحران پيدا ہوا تو اس کا سب سے زيادہ اثر تارکين وطن کارکنوں ہی پر پڑے گا۔ اس سے معاشرتی تناؤ پيدا ہوگا۔

M.Koch,sas/F.Taube,ai