غیر قانونی ’شرعی پولیس‘ کو کیا گیا جرمانہ جائز، جرمن عدالت
20 جولائی 2020اس قانونی تنازعے کی ابتدا ستمبر 2014ء میں اس وقت ہوئی تھی، جب جرمنی کے مغربی شہر ووپرٹال کے ایک حصے میں مقامی مسلم آبادی سے تعلق رکھنے والے اور سلفی نظریات کے حامل نوجوانوں نے اپنے طور پر رات کے وقت شہر میں گشت کرنا شروع کر دیا تھا۔
یہ نوجوان خود کو 'شرعی پولیس اہلکار‘ قرار دیتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ دیگر نوجوان مسلمانوں کو جوئے کی مشینوں والے تفریحی مراکز، قحبہ خانوں اور شراب نوشی کے لیے شراب خانوں میں جانے سے روکیں۔
شہر کے شبینہ زندگی کا مرکز سمجھے جانے والے علاقے میں یہ سلفی نوجوان رات کے وقت دو دو تین تین کے گروپوں میں گشت کرتے تھے۔
تب انہوں نے اکثر نارنجی رنگ کی ایسی مختصر جیکٹیں بھی پہنی ہوتی تھیں، جن پر جرمن زبان میں 'شرعی پولیس‘ لکھا ہوتا تھا۔ اس شبینہ گشت پر تب علاقے کے لوگوں نے احتجاج کرنا شروع کر دیا تھا۔
صوبائی عدالت میں سماعت کے بعد بری
اس بظاہر رضا کارانہ لیکن بلا اجازت گشت پر پولیس نے اس سلفی مسلم گروپ کے ارکان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا۔ پہلی سماعت ووپرٹال کی ایک صوبائی عدالت میں ہوئی تھی، جس نے ملزموں کر بری کر دیا تھا۔ اس پر استغاثہ نے وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا، تو جنوری 2018ء میں فیڈرل کورٹ نے صوبائی عدالت کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔
اس پر صوبائی عدالت نے اپنے نئے فیصلے میں ملزمان کو جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں، جن کی قانونی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے پولیس کی یونیفارم کو جزوی طور پر لیکن اس طرح غلط استعمال کیا تھا کہ وہ عام لوگوں کو یہ تاثر دیتے تھے کہ جیسے وہ پولیس اہلکار ہوں۔
یونیفارم سے متعلقہ قانون کا غلط استعمال
اس فیصلے کے خلاف بعد میں ملزمان نے جنوبی جرمن شہر کارلسروہے کی وفاقی عدالت انصاف میں ایک اپیل بھی دائر کر دی تھی، جس پر اس عدالت نے اپنا حتمی فیصلہ آج پیر بیس جولائی کو سنا دیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا، ''ملزمان نام نہاد 'شرعی پولیس‘ کی جیکٹیں پہنے ہوئے جب شبینہ گشت کرتے تھے، تو وہ عام لوگوں کو یہ غلط تاثر دیتے تھے کہ جیسے ان کے اقدامات کی وجہ انہیں قانونی طور پر سونپے گئے کوئی اختیارات ہوں۔ اس لیے یونیفارم کے غلط استعمال کی وجہ سے انہیں سنائی گئی جرمانے کی سزائیں قانون کے عین مطابق اور حتمی ہیں۔‘‘
اسلام کے نام پر اس نام نہاد لیکن چند سلفی مسلم نوجوانوں کی نجی طور پر قائم کردہ 'شرعی پولیس‘ کی وجہ سے مقامی باشندوں میں یہ تاثر پیدا ہو گیا تھا کہ جیسے یہ نوجوان لوگوں کو زبردستی ان کا طرز زندگی بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اسے 'ریاست کے اندر ریاست کے قیام‘ کی کوشش کا نام بھی دیا گیا تھا۔ اسی لیے یہ واقعہ عوام اور میڈیا کی سطح پر بھی بہت مشہور ہوا تھا۔ اب لیکن یہ معاملہ حتمی طور پر اپنے قانونی انجام کو پہنچ گیا ہے۔
م م / ع ت (ڈی پی اے، ای پی ڈی)