جرمنی: شامی مہاجرین کی فیملی ری یونین کا معاملہ کھٹائی میں
7 اکتوبر 2017جرمن روزنامے ’نوئے اوسنابروئکر‘ کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن یا ’بمف‘ نے یونان میں فیملی ری یونین کے منتظر لگ بھگ پانچ ہزار ایسے مہاجرین کو امسال جنوری سے ستمبر تک جرمنی لانے کا وعدہ کیا تھا جن کے خاندان کے دیگر افراد جرمنی میں مہاجرت اختیار کیے ہوئے ہیں تاہم اس تعداد کا صرف چھ اعشاریہ پانچ فیصد یعنی 322 تارکین وطن ہی یونان سے جرمنی آ سکے ہیں۔
یہ فیملی ری یونین مہاجرین کے آبائی ممالک سے آنے والے اُن کے خاندانوں کے ملاپ جیسی نہیں ہے۔ جرمن وزراء کے مطابق عارضی پناہ کے حامل مہاجرین کو اپنے اہل خانہ کو جرمنی بلانے پر عائد پابندی میں توسیع کی جانا چاہیے۔ یہ پابندی اس وقت مارچ 2018ء تک عائد ہے۔
دوسری جانب مہاجرین سے متعلق ڈبلن معاہدے کے تحت پناہ کی درخواست دائر ہونے کے بعد سے چھ ماہ کے عرصے کے اندر ایک مہاجر یورپی یونین کے دوسرے رکن ملک میں اپنے خاندان سے فیملی ری یونین کا حقدار ہوتا ہے۔
جرمن اخبار کے مطابق فیملی ری یونین کے منتظر تارکین وطن میں دو تہائی تعداد شامیوں کی ہے تاہم ان میں افغان اور عراقی مہاجرین بھی ایک بڑی تعداد میں شامل ہیں۔
'نوئے اوسنابروئکر‘ کی رپورٹ کے مطابق جرمن وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ فیملی ری یونین کے حوالے سے یونان میں انتظامی اور دیگر مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اسی وجہ سے جرمنی کو مہاجرین کی تعداد کے بارے میں یونان سے بات کرنا ہو گی۔ تاہم جرمن وزارت داخلہ نے مہاجرین کی فیملی ری یونین کے معاملے میں کسی حد یا مخصوص تعداد کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔