جرمنی آنا غلطی تھی، واپس کیسے جائیں؟ دو پاکستانیوں کی کہانی
16 جنوری 2017جرمن وفاقی ریاست باویریا میں زونٹہوفن نامی ایک چھوٹے سے گاؤں میں آبادی سے دور کنٹینروں کی مدد سے تارکین وطن کا ایک کیمپ بنایا گیا ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دو پاکستانی تارکین وطن ایسے بھی ہیں جو واپس پاکستان جانا چاہتے ہیں لیکن انہیں اس ضمن میں مشکلات کا سامنا ہے۔
رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے
یونان میں پھنسے پاکستانی وطن واپسی کے لیے بیقرار
پارا چنار سے تعلق رکھنے والے پینتیس سالہ علی (فرضی نام) سے ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ وہ واپس پاکستان کیوں جانا چاہتا ہے تو اس کا کہنا تھا، ’’میں کاروبار کرنے والا آدمی ہوں۔ میں نے سوچا تھا کہ جرمنی پہنچ کر کچھ برس کام کروں گا اور اتنے پیسے کما سکوں گا کہ میں اپنے بچوں کو ایک اچھا مستقبل دے سکوں لیکن یہاں تو کام نہیں ملتا اس لیے واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘
علی سن 2015 کی ستائیس جون کو جرمنی پہنچا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ پاکستان سے جرمنی پہنچنے تک اس کے تقریباﹰ بارہ لاکھ پاکستانی روپے خرچ ہوئے۔ سیاسی پناہ کی درخواست جمع کرانے کے تقریباﹰ تین ماہ بعد اسے جرمنی میں چھ ماہ تک عارضی قیام کا اجازت نامہ دے دیا گیا اور کام کرنے کی اجازت بھی۔
لیکن ملازمت حاصل کرنے میں اس کے راستے میں سب بھی بڑی رکاوٹ جرمن زبان ثابت ہوئی۔ کئی ماہ تک نوکری حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کرنے کے بعد اب وہ تھک چکا ہے اور واپس پاکستان جانا چاہتا ہے۔ لیکن اس کے پاس واپس جانے کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔
پچیس سالہ عمران (فرضی نام) کا تعلق اٹک سے ہے لیکن اس کی پرورش کراچی کے علاقے لیاری میں ہوئی۔ عمران نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چند سال پہلے اس کے والد کا انتقال ہو گیا جس کے بعد خاندان کی کفالت کا بوجھ اس کے کندھوں پر آن پڑا ۔
کراچی میں سکیورٹی کی صورت حال سے پریشان ہو کر عمران اپنے خاندان کے ہمراہ اٹک کے نواح میں واقع اپنے گاؤں منتقل ہو گیا۔ کراچی میں وہ درزی کا کام کرتا تھا لیکن گاؤں واپس آ کر اسے اپنے گھر کا خرچہ چلانے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں۔
عمران کا کہنا ہے کہ سن 2015 میں موسم گرما میں اسے دوستوں سے معلوم ہوا کہ جرمنی کی سرحدیں کھلی ہوئی ہیں اور وہاں پناہ دی جا رہی ہے تو اس نے بھی اس غیر قانونی سفر پر نکلنے کا ارادہ کیا۔
دوستوں اور عزیزوں سے پیسے ادھار لے کر وہ بھی اس پرُ خطر راستے پر نکل پڑا اور آخر کار اسی برس جون کے مہینے میں جرمنی آن پہنچا۔ علی کی طرح اسے بھی آؤگسبرگ کے اس نواحی علاقے میں قائم تارکین وطن کے کیمپ میں رہائش فراہم کر دی گئی۔
جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟
عمران نے یہ بھی بتایا کہ جب وہ جرمنی پہنچا تھا تو جرمن اداروں اور رضاکاروں نے اس کی بھرپور مدد کی لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان کے رویے سرد ہوتے چلے گئے۔ عمران کے مطابق، ’’پہلے فرانس اور اب برسلز میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد جرمن باشندوں کے رویوں میں واضح تبدیلی آئی ہے۔‘‘
عمران کو بھی جرمنی میں چھ ماہ تک رہنے اور کام کرنے کی اجازت مل گئی تھی لیکن اسے بھی کام نہیں مل سکا۔ تین مہینے پہلے علی اور عمران نے جرمن حکام کو درخواست دی تھی کہ انہیں وطن واپس بھیج دیا جائے۔ دونوں نے پاکستانی سفارت خانے سے ایک ماہ کا عارضی پاسپورٹ بھی حاصل کر چُکے تھے جن کی میعاد اب ختم ہو چکی ہے۔
ان دونوں کی وطن واپسی میں اصل رکاوٹ یہ ہے کہ ان کے پاس واپس جانے کے لیے ٹکٹ خریدنے تک کے پیسے نہیں ہیں۔ انہوں نے جرمنی سے رضاکارانہ واپسی کے لیے درخواست دے رکھی ہے جس کے بعد جرمن حکام پناہ گزینوں کو ملک واپس بھیجنے کا بندوبست کرتے ہیں۔ لیکن اس سارے عمل میں وقت لگ رہا ہے۔
عمران کا کہنا ہے، ’’میں واپس جانا چاہتا ہوں۔ فارغ بیٹھ بیٹھ کر مجھے یوں لگتا ہے جیسے میرا بدن کام کرنا چھوڑ چکا ہے۔ یہاں ہمارا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ شامی مہاجرین کو فوراﹰ پناہ بھی مل جاتی ہے اور ان کی مدد بھی کی جاتی ہے لیکن پاکستانیوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہاں ہم کنٹینرز میں رہ رہے ہیں جہاں گرم پانی بھی نہیں ہے۔ میں اپنے گھر والوں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے نکلا تھا لیکن اب میں اپنی ماں کے پاس واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘
علی شیعہ مسلمان ہے اور اس کے علاقے میں چند ماہ پہلے دہشت گردی کا واقعہ بھی پیش آیا تھا۔ اس سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ان حالات کے باوجود واپس جانا چاہتا ہے تو اس کا کہنا تھا، ’’زندگی اور موت تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان سے میں جان بچانے کے لیے نہیں بلکہ کاروبار کرنے نکلا تھا۔‘‘