جرمن کھلاڑی کا ہم جنس پرست ہونے کا اعتراف اور ردعمل
10 جنوری 2014جرمن کھلاڑی کی طرف سے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پیشہ ور کھلاڑی بھی ہم جنس پرست ہو سکتا ہے۔ تھوماس ہٹسلس پیرگر جرمنی کا وہ پہلا کھلاڑی ہے، جس نے سرعام ہم جنس پرست ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ اس اکتیس سالہ جرمن کھلاڑی نے اپنے کیرئیر کے اختتام کا اعلان گزشتہ برس ستمبر میں کیا تھا۔ جرمن سوشل میڈیا پر ہٹسلس پیرگر کے اس اعتراف کی انتہائی تعریف کی جا رہی ہے۔ ایک جرمن سیاستدان گریگور گیسی کا ٹوئٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ امید ہے کہ تمام شعبوں میں جلد ہی فرسودہ مردانگی کا روایتی تصور ختم ہو جائے گا، یہ کوئی بڑا معاملہ نہیں رہے گا کہ کون کس کے ساتھ اور کیسے رہ رہا ہے۔‘‘ اسی طرح انٹریٹ پر سپائسو راما نامی ایک یوزر نے لکھا ہے، ’’افسوس کی بات ہے کہ آج کے دور میں بھی زیادہ تر اخبارات نے اس اعتراف کے لیے بہادری کا لفظ استعمال کیا ہے، حالانکہ یہ ایک عام سی بات ہونی چاہیے۔‘‘
منفی ردعمل
جہاں پر ہٹسلس پیرگر کی تعریف کی جا رہی ہے، وہیں پر تنقیدی آوازیں بھی سننے کو مل رہی ہیں۔ ابو سارا رابیعہ کا ٹوئٹر پر کہنا تھا، ’’ میڈیا پر کس بہادری کی بات کی جا رہی ہے ؟ بہادری تو اس وقت ہوتی اگر ہٹسلس پیرگر ریٹائر ہونے سے پہلے اس بات کا اعلان کرتا۔‘‘ اسی طرح درجنوں سوشل میڈیا یوزرز کا کہنا ہے کہ اس بات کا اعلان پہلے کیوں نہیں کیا گیا۔ بعض افراد نے اس معاملے پر میڈیا کے کردار کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ ولانٹا نامی ایک شخص کے مطابق اس معاملے کو میڈیا نے ضرورت سے زیادہ اہمیت دی ہے، وہ لکھتے ہیں، ’’ افسوس کی بات ہے کہ ہمارا میڈیا ہیٹسل شپیرگر پر فخر کر رہا ہے، اب چند ہی روز بعد ہٹسلس پیرگر اپنی کتاب منظر عام پر لے آئے گا، اُس کی اس سے بہتر پروموش نہیں کی جا سکتی۔‘‘
توہین آمیز تبصرے
نہ صرف ٹوئٹر بلکہ فیس بک پر بھی اس سابق فٹبال کھلاڑی کے بارے میں بہت سے تبصرے کیے گئے ہیں۔ ایک فیس بک یوزر بیٹنا واگنر لکھتی ہیں، ’’افسوس کہ ہمیں ہم جنس پرستی کے اعتراف پر مبارکباد پیش کرنا پڑ رہی ہے۔ میرے خیال میں یہ خبر بہت اچھی ہے اور میں بھی ایسا ہی کرتی۔ مجھے امید ہے کہ اس کے ردعمل میں ایک مثبت بحث کا آغاز ہو گا۔ لیکن بحث سے بہتر یہ ہوتا کہ ہم اسے قبول کرتے، ہم جنس پرستی نہ تو کوئی بیماری ہے اور نہ ہی کوئی جرم!‘‘
بہت سے اخبارات نے اس اسٹوری کو اپنے فیس بک پیج پر بھی پوسٹ کیا تھا، جس کے نتیجے میں توہین آمیز پیغامات بھی درجنوں میں پڑھنے کو ملے۔ کئی اخبارات نے ان تبصروں کو ڈیلیٹ کیا ہے، جو توہین آمیز الفاظ پر مبنی تھے۔ ایک شخص نے اپنے بلاگ میں ہٹسلس پیرگر کے بارے میں مثبت اور منفی تبصروں کا موازنہ کیا ہے۔ اس کے مطابق توہین آمیز کی بجائے مثبت تبصروں کی تعداد زیادہ تھی۔
کھیلوں کے میگزین ’الیون فرینڈز‘ کے چیف ایڈیٹرکا کہنا ہے کہ توہین آمیز تبصروں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اس میگزین کی طرف سے دو آرٹیکل فیس بک پر پوسٹ کیے گئے تھے اور ردعمل میں تمام پوسٹ کیے جانے والے توہین آمیز تبصروں کو ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا۔