1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وفاقی وزیر داخلہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ

16 ستمبر 2018

جرمنی میں تارکین وطن افراد کے تحفظِ حقوق کی الائنس نے جرمن وزیر داخلہ زیہوفر سے مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ نسل پرستی کی مذمت کریں یا اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں۔ اس اتحاد کے مطابق اس تناظر میں انہیں جلد فیصلہ کر لینا چاہیے۔

https://p.dw.com/p/34w1q
CSU-Parteitag und Wahlkampfkundgebung
تصویر: picture alliance/dpa/S. Hoppe

جرمن میں تارکین وطن پس منظر کے حامل افراد کے لیے فعال مختلف گروپوں کے اتحاد ’نیو جرمنز‘ نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کو ملک کی اقدار کا دفاع کرنا چاہیے یا اس عہدے سے الگ ہو کر کسی اور کو یہ منصب سنبھالنے کا موقع دے دینا چاہیے۔ اس الائنس کے مطابق جرمنی میں نسل پرستی اور نفرت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

سو سے زائد گروپوں پر مشتمل اتحاد ’نیو جرمنز‘ نے ہورسٹ زیہوفر کو ایک کھلا خط لکھا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ انہیں استعفیٰ دے دینا چاہیے۔ اس خط میں وزیر داخلہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ’اس ملک میں مزید تقسیم پیدا کی ہے‘۔

اس خط میں لکھا گیا ہے، ’’بطور شہری ہم پریشان ہیں۔۔۔ ہم پریشان ہیں کیونکہ دائیں بازو کے انتہا پسند خبروں میں شہ سرخیاں بن رہے ہیں، غیر ملکیوں کو ملک سے نکل جانے کا کہہ رہے ہیں اور یہ دیکھ کر دھچکے کی کیفیت میں ہیں کہ کچھ لوگ ہٹلر والا سیلیوٹ کر رہے ہیں‘‘

اس خط کے متن میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ غیر ملکی افراد اور ان کے بچے اب جرمنی میں کھلے عام اور آزادانہ طور پر گھومنے پھرنے سے خوفزدہ ہیں۔

کیمنٹس اور کوئتھن میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں ’نیو جرمنز‘ نے ہورسٹ زیہوفر کو ارسال کردہ خط میں مزید کہا، ’’وزیر داخلہ کو ملک مزید تقسیم نہیں کرنا چاہیے بلکہ ملک کی بنیادی اقدار کے مطابق سخت مؤقف اختیار کرنا چاہیے۔ یا پھر دفتر کو چھوڑ دینا چاہیے تاکہ کوئی اور اس منصب کی ذمہ داریاں نبھا سکے۔‘‘

تارکین وطن کی طرف سے لکھے گئے اس خط میں واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کو ملک، آزادی اظہار اور جمہوریت  کے تمام دشمنوں کی کھلے عام مذمت کرنا چاہیے۔ مزید لکھا گیا گیا، ’’لیکن بدقسمتی سے آپ ایسا نہیں کر رہے۔ یوں آپ دانستہ طور پر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مسئلہ ہم ہی ہیں۔‘‘

ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید