1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر دفاع سیاسی مذاکرات کے لیے کابل میں

14 مارچ 2012

جرمن چانسلر میرکل کے اچانک دورہ افغانستان کے دو روز بعد جرمن وزیر دفاع ٹوماس دے میزیئر بھی آج بدھ کو کابل پہنچ گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/14KI3
تصویر: dapd

جرمن وزیر افغان دارالحکومت کابل میں صدر حامد کر زئی اور وزیر دفاع عبدالرحیم وردک کے ساتھ ملاقاتوں میں مختلف موضوعات پر تفصیلی بات چیت کریں گے۔

ٹوماس دے میزیئر نے گزشتہ ہفتے بھی شمالی افغانستان میں جرمن دستوں کے ایک یونٹ کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد گزشتہ پیر کے روز چانسلر میرکل بھی اپنے ایک اچانک دورے پر افغانستان پہنچ گئی تھیں۔

جرمن وزیر دفاع ٹوماس دے میزیئر اپنا تازہ دورہ افغانستان اس واقعے کے محض چند روز بعد کر رہے ہیں، جس میں ایک امریکی فوجی نے سولہ افغان شہریوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ ان ہلاک شدگان میں نو بچوں کے علاوہ تین خواتین بھی شامل تھیں۔ قتل کے اس واقعے کے بعد طالبان عسکریت پسندوں نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ ان سویلین ہلاکتوں کا بدلہ لیں گے۔

Deutschland Bundestag Angela Merkel und Thomas de Maiziere
جرمن چانسلر میرکل اور جرمن وزیر دفاع ٹوماس دے میزیئرتصویر: dapd

آج بدھ کو کابل پہنچنے پر جرمن وزیر دے میزیئر نے کہا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا سن 2014 تک انخلاء ایک ایسی ڈیڈ لائن ہے جو ابھی تک مغربی ملکوں کا واضح ہدف ہے۔

اس سے پہلے چانسلرمیرکل نے مزار شریف میں اپنے دورے کے دوران پیر کے روز کہا تھا کہ افغان عسکریت پسندوں اور باغیوں کے ساتھ رابطوں اور ممکنہ مذاکرات کے سلسلے میں ابھی تک کافی پیش رفت نہیں ہوئی۔ چانسلر میرکل نے اپنے اس بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ افغانستان میں ابھی اتنی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی کہ غیر ملکی دستے وہاں سے رخصت ہو سکیں۔

اس وجہ سے افغان صوبے بلخ کے دارالحکومت مزار شریف میں جرمن دستوں کے ہیڈ کوارٹرز میں انگیلا میرکل نے یہ بھی کہا تھا، ’یہی وجہ ہے کہ میں یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ ہم 2013ء اور 2014ء تک یہ ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہیں گے یا نہیں‘۔

Afghanistan Taliban
طالبان عسکریت پسندوں کی کارروائیاں جاری ہیںتصویر: Reuters

جرمن وزیر دے میزیئر آج اپنا دورہء افغانستان بنیادی طور پر صدر کرزئی اور اپنے ہم منصب افغان وزیر وردک کے ساتھ سیاسی بات چیت کے لیے کر رہے ہیں۔ لیکن اس دورے کو نیٹو کی اس سربراہی کانفرنس کے پیش منظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے جو مئی میں ہو گی۔

اس سربراہی کانفرنس میں افغانستان کے لیے اپنے فوجی دستے مہیا کرنے والے ملک 2014ء میں وہاں سے فوجی انخلاء کے بعد کی صورتحال کے بارے میں مشورے کریں گے۔

جرمن وزیر دفاع آج افغانستان پہنچنے سے پہلے گزشتہ دنوں میں پاکستان اور ازبکستان بھی گئے تھے۔ یہ دونوں ملک افغانستان میں داخلی سلامتی اور استحکام کی بین الاقوامی کوششوں کے حوالے سے انتہائی اہم سمجھے جاتے ہیں۔ افغانستان میں جرمن دستوں کو بہت سا سامان رسد ازبکستان کے راستے ہی مہیا کیا جاتا ہے۔ ازبکستان افغانستان سے غیر ملکی فوجی انخلاء کی صورت میں اتحادی دستوں کے ساز و سامان کی زمینی راستوں سے واپسی کے لیے بھی ایک بہت اہم رابطہ ہو گا۔

رپورٹ: عصمت جبیں

ادارت: مقبول ملک