1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن وزیر خارجہ کا ایرانی دورہ، پانچ سوال اہم ہیں

9 جون 2019

جرمن وزیر خارجہ اپنے چار روزہ مشرق وسطیٰ کے دورے کے اختتام پر ایران پہنچ رہے ہیں۔ ایران میں قیام کے دوران ان کی پوری توجہ سن 2015 کی ایرانی جوہری ڈیل کو بچانے پر ہو گی۔

https://p.dw.com/p/3K6Om
Außenminister Maas mit Aiman al-Safadi in Jordanien
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/R. Adayleh

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس اردن اور متحدہ عرب امارات سے ہوتے ہوئے ایران پہنچیں گے۔ تہران میں وہ اپنے ہم منصب محمد جواد ظریف سے ملاقات کریں گے۔ جرمن وزارت خارجہ نے جمعرات چھ جون کو کہا تھا کہ ماس تہران میں قیام کے دوران اعلیٰ سطحی ملاقاتوں میں ہونے والی بات چیت میں ایرانی جوہری ڈیل کو فوقیت دیں گے۔

ہائیکو ماس کے اس دورے کی ضرورت اور اہمیت پر پانچ اہم سوال ہیں:۔

دورہ ابھی کیوں؟

جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس گزشتہ ڈھائی برسوں میں ایران کا دورہ کرنے والے پہلے جرمن وزیر ہوں گے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب خلیج فارس کی جغرافیائی، سیاسی اور عسکری صورت حال سے ساری دنیا پریشان ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر انتہائی زیادہ دباؤ بڑھا رکھا ہے۔

یہ بھی اہم ہے کہ خطے میں صبر و تحمل میں بھی کمی آ رہی ہے۔ ایران سات جولائی سے جوہری ڈیل کی بعض بنیادی شرائط پر مزید عمل نہ کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ تہران حکومت نے واضح کر رکھا ہے کہ یورپی ممالک کو اس تاریخ سے قبل امریکی پابندیوں کے توڑ کے لئے عملی راستہ تلاش کرنا ہو گا۔

Außenminister Maas im Irak - Heiko Maas und Adil Abdul-Mahdi
جرمن وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ کے دورے کے دوران غیر اعلانیہ طور پر عراق کے دارالحکومت بغداد بھی گئےتصویر: picture-alliance/dpa/T. Koehler

جرمن وزارت خارجہ کے مقاصد کیا ہیں؟

ہائیکو ماس کے دورے کے بنیادی مقصد کی وضاحت برلن حکومت کی جانب سے اُن کے مشرق وسطیٰ کے دورے سے قبل سامنے آ چکی ہے۔ ماس ہر ممکن طریقے سے ایرانی جوہری ڈیل کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوشش میں ہیں۔ وہ ایران کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ سات جولائی کے انتباہ سے دستبردار ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کی موجودگی میں یورپی اقوام کے تہران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو فعال کرنے کی یقین دہانی کرائیں۔ اس دورے کے حوالے سے جرمن وزیر خارجہ نے اپنے امریکی ہم منصب کو حالیہ دورے میں مطلع بھی کیا تھا۔ لیکن امریکا جوہری ڈیل کو بچانے کی یورپی کوششوں پر ناراضی ظاہر کر چکا ہے۔

جرمن وزیر خارجہ کو تہران سے کیا توقعات ہو سکتی ہیں؟

ایران امریکی پابندیوں کی وجہ سے عالمی معاشی نظام سے علیحدہ  ہو کر رہ گیا ہے۔ ایران یقینی طور پر تجارتی پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے۔ امریکی پابندیوں پر ایران کے سخت گیر حلقوں نے موقف دہرایا ہے کہ مغرب پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایرانی وزارت خارجہ بھی گزشتہ ہفتے واضح کر چکی ہے کہ ڈیل کے علاوہ کسی موضوع پر بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ صورت حال جرمن وزیر خارجہ کے لیے خاصی مشکل دکھائی دیتی ہے۔

Kombobild Heiko Maas und Shinzo Abe
خلیج فارس میں کشیدگی میں کمی لانے کے لیے جرمن وزیر خارجہ کے بعد جاپانی وزیراعظم بھی تہران کا دورہ کریں گے

امریکی پوزیشن کیا ہے؟

حال ہی میں امریکی صدر ٹرمپ کے بیانات میں مصالحانہ رویہ محسوس کیا گیا ہے اور ڈائیلاگ کی بات کی گئی، لیکن موجودہ حالات میں ایرانی حکومت امریکا سے بات چیت شروع کرنے سے انکاری ہے۔ امریکی صدر کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کا موقف سخت ہے۔ امریکا کے سخت موقف رکھنے والے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بھی گزشتہ برس کی سخت شرائط میں سے ایک درجن کو کسی حد تک حذف کر دیا ہے۔ امریکا پوری طرح واضح کر چکا ہے کہ وہ ایران کو ایٹم بم بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بولٹن اور ایران کے ساتھ جنگ میں ایک ہی شخص کھڑا ہے اور وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔

کیا ہو سکتا ہے؟

خلیج فارس میں امریکا نے طیارہ ساز جنگی بحری جہاز اور ایک بمبار اسکواڈرن تعینات کر دیا ہے۔ ہائیکو ماس کے ایرانی دورے کے بعد جاپانی وزیراعظم تہران پہنچیں گے۔ جاپانی وزیراعظم کے دورے کا امریکی صدر خیرمقدم کر چکے ہیں۔ امریکی اتحادی عراق اور عُمان بھی ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ ان ممالک کی پہلی خواہش ایران اور امریکا کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔ لیکن جب تک امریکا اقصادی پابندیوں میں نرمی نہیں کرتا، ایسا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ اس مسئلہ کا جب بھی حل نکلے گا وہ تبھی پائیدار ثابت ہو سکے گا جب اس میں خطے کے دو بڑے فریق، ایران اور سعودی عرب کے سکورٹی مفادات کا تحفظ ہوگا۔

ماتھیاس فان ہائنز (عابد حسین)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں