1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ماہر وائرولوجی کو قتل کی دھمکیاں

30 مئی 2020

کورونا وائرس کا اپ ڈیٹ دینے والے ممتاز جرمن ماہر وائرولوجی کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ان دھمکیوں پر سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/3d16d
Deutschland Coronavirus Berlin Christian Drosten
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Gateau

کورونا وائرس کی مہلک وبا کے دوران ہر ملک میں کم از کم ایک شخص اس مرض سے متعلق عوام کو اپ ڈیٹ کرتا ہے۔ یہی ماہرین حکومت کو وبا سے نمٹنے کے حوالے سے مشورے بھی دیتے ہیں۔ جرمنی میں کورونا وائرس کی وبا سے متعلق روزانہ کی بنیاد پر اپ ڈیٹ معروف ماہر وائرولوجی کرسٹیان ڈروسٹن پیش کرتے رہے ہیں اور اس باعث انہیں ہر جرمن گھر پہچاننے لگا ہے۔

’کورونا ہے تو کيا ہوا، اسرائيل مخالف مظاہرے کاروں ميں کريں‘

جرمنی میں ’کورونا مظاہرے‘، چانسلر میرکل پریشان

کرسٹیان ڈروسٹن نےایک ماہ قبل اپریل میں برطانوی اخبار گارڈین کو انٹرویو دیتے ہوئے بیان کیا تھا کہ انہیں قتل کی دھمکیوں کا سامنا ہے اور ایسی دھمکیوں کی تفصیلات انہوں نے ملکی پولیس کو فراہم کر دیں ہیں۔ اسی طرح رواں برس مئی میں بھی مختلف نوعیت کی دھمکیاں انہیں ملی ہیں۔

وائرس سے پھیلنے والے امراض کے ماہر کرسٹیان ڈروسٹن جرمن دارالحکومت کے بڑے ہسپتال شاریٹے سے منسلک ہیں۔ وہ کورونا وائرس کی نئی قسم سے پھیلنے والی بیماری کووڈ انیس کے حوالے سے جرمن نشریاتی ادارے این ڈی آر کے پروگرام 'دس کورونا وائر اپ ڈیٹ‘ میں روزانہ اس وبا کے بارے میں تفصیلات پیش کرتے رہے ہیں۔ اس کی مقبولیت کا عالم یہ ہے کہ اس کی پوڈکاسٹ کو اب تک تینتالیس لاکھ مرتبہ ڈاؤن لوڈ یا سنا گیا۔

Deutschland Corona-Demo in Stuttgart
جرمنی میں کئی شہریوں میں کورونا لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرے بھی جاری ہیںتصویر: Getty Images/T. Lohnes

مہلک وبا کے دوران کیے گئے لاک ڈاؤن نے جب طوالت اختیار کی تو لوگوں میں اس کے خلاف بیزاری نے جنم لینا شروع کر دیا۔ جوں جوں عوامی بے چینی میں اضافہ ہوتا گیا تو ردعمل کے طور پر لوگوں کی کثیر تعداد نے عملی مظاہروں میں شریک ہونا بھی شروع کر دیا۔ ڈروسٹن اور ان کے ساتھیوں پر الزام تراشی کے سلسلے میں کہا گیا کہ وہ صورت حال کو انتہائی زیادہ گھمبیر کر کے پیش کر رہے ہیں اور یہ سارے معاملے کے تاریک پہلو پر ہی فوکس کیے ہوئے ہیں۔

اس طرح ایک ہفتہ قبل ممتاز جرمن اخبار 'بلڈ' نے بھی ڈروسٹن پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے کووڈ انیس کے حوالے سے بچوں میں اس کے پھیلنے سے متعلق مرتب کی جانے والی ریسرچ رپورٹ میں جعلی اعداد و شمار پیش کیے ہیں اور اس کے پس پردہ سیاسی محرکات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس رپورٹ میں ڈروسٹن اور ان کے دوسرے ریسرچرز نے بیان کیا تھا کہ کووڈ انیس بیماری کا وائرس بالغوں اور بچوں میں بھی پھیلنے کی قوت رکھتا ہے۔

'بلڈ‘ کی رپورٹ میں واضح کیا گیا کہ ڈروسٹن کی رپورٹ نے حکام کو بچوں کے اسکولوں اور کنڈرگارٹن بند رکھنے پر مجبور کیا ہے۔ اس اخباری رپورٹ کے بعد ڈروسٹن کی حمایت میں سوشل میڈیا پر بیانات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ممتاز ماہر اقتصادیات ژؤرگ شٹوئے کا کہنا ہے کہ اخباری رپورٹ حقیقت میں وائرولوجسٹ ڈروسٹن کو بدنام کرنے کی منظم مہم ہے۔ دوسری جانب لاک ڈاؤن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہزاروں افراد نے لاک ڈاؤن کے تسلسل کو سازشی نظریات کی وجہ قرار دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے ڈروسٹن اور ان جیسے دوسرے ماہرین کے حکومتی حلقے کو دیے جانے مشوروں پر انگلیاں اٹھانی شروع کر دیں۔

مئی کے مہینے میں جنوبی جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میونخ کی کھمبوں پر ایسے اسٹکرز چسپاں کر دیے گئے جن میں ڈروسٹن کو نازی دور حکومت کے بدنام ڈاکٹر ژوزف مینگیلے کے طور پر پیش کیا گیا۔ مینگیلے نے آؤشوئٹس میں مریض قیدیوں پر خوفناک تجربات کیے تھے۔ ان اسٹکرز پر 'یقین کریں میں ایک ڈاکٹر ہوں‘ کی عبارت بھی درج ہے۔

رکن پارلیمنٹ اور وبائی امراض کے ماہر کارل لاؤٹرباخ کو ایک مہلک محلول والی بوتل بذریعہ پوسٹ ملی اور اس پر'پازیٹو‘ لکھا تھا۔ اور یہ بھی درج تھا،'اسے پی لیں‘۔ ایک گھنٹے بعد وائرولوجسٹ ڈروسٹن کو بھی ایسا ہی محلول ملا۔ لاؤٹرباخ کو تو ایک پوسٹ کارڈ پر دھمکی بھی دی گئی۔ جرمن پولیس نے ایسی دھمکیوں کی تفتیش شروع کر دی ہے۔

ڈروسٹن ماہرین وائرولوجی کی اس ٹیم کا حصہ رہے ہیں جنہوں نے سن 2013 میں سارس وائرس کو دریافت کیا تھا۔

کیٹ براڈی، ع ح، ع ت