1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

جرمن فوج کے لیے ڈرون ضرور لیکن ہتھیاروں کے بغیر

15 دسمبر 2020

بنڈس وہیر یعنی جرمن فوج کو اسرائیلی ساختہ ڈرونز دیے تو جا رہے ہیں لیکن اِن پر نصب کیے جانے والے ہتھیاروں کا معاملہ ابھی کھٹائی میں ہے۔ شاید سرِدست جرمن فوج کے لیے وقت مناسب نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3mk8N
Kampfdrohne des Typs «Heron TP»
تصویر: Jose Ruiz/dpa/picture alliance

جرمن فوج کو اگلے مہینوں میں پانچ ہیرون ٹی پی نامی ڈرونز فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یہ اسرائیلی ایرواسپیس انڈسٹریز کے تیار کردہ ہیں۔ ایک ڈرون تیس گھنٹے تک فضا سے زمین کی نگرانی کر سکتا ہے۔ ان کو زمین سے کسی خفیہ مقام سے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس ڈرون کی خراب موسم میں بھی کارکردگی متاثر نہیں ہوتی۔ یہ زمین پر چلنے والی کاروں، مکانات اور لوگوں کے امیجز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جرمن فوج کا مطالبہ ہے کہ ان میں ہتھیار بھی نصب کیے جائیں اور وہ یہ ہتھیار جلد از جلد نصب کرنا چاہتی ہے۔ فوج کا خیال ہے کہ ہتھیار نصب ہونے کی صورت میں کسی بھی ملک دشمن شخص یا جنگی مشن میں حملہ کرنے والے دشمن جنگجووں کو نشانہ بنانا ممکن ہو گا۔ ہیرون ٹی پی ڈرونز پر جو ہتھیار نصب ہوں گے وہ اصل میں خاص قسم کے میزائل ہیں اور ان کی خریداری کی اجازت جرمن پارلیمنٹ نے دینی ہے۔ جرمن وزارتِ دفاع میزائل خریدنے کا کنٹریکٹ تیار کر کے بیٹھی ہوئی ہے اور اب پارلیمانی سبز جھنڈی درکار ہے۔مسلح ڈرونز مگر امريکا کے طرح حملوں کے ليے نہيں

مخلوط حکومت میں شامل پارٹی تذبذب میں

چانسلر انگیلا میرکل کی مخلوط حکومت میں شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) نے ابتدا میں ڈرونز پر میزائل نصب کرنے کے منصوبے کی حمایت کا اشارہ ضرور دیا تھا لیکن اب وہ اس سے متفق نہیں۔ ایس پی ڈی کے ایک رہنما نوربیرٹ والٹر  کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ میں ابھی سیرحاصل بحث ہونا باقی ہے اور ویسے بھی ملکی فوجیوں کی زندگی اور کسی کو جوئے اسٹک سے ہلاک کرنے میں بہت ہی معمولی فرق ہے۔ ایس پی ڈی کے رہنما کے بیان پر جرمن سیاستدانوں کے متضاد ردعمل سامنا آیا ہے۔ ایس پی ڈی اپنے موقف کی حمایت میں دوسری پارٹیوں کے ساتھ رابطے میں ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے ابھی تک پارلیمنٹ کی سیاسی جماعت گرین پارٹی کا کہنا ہے کہ ابھی کوئی واضح موقف اپنایا نہیں ہے لیکن انجام کار اس کی مخالفت یا حمایت کرنا ہو گی۔

Israel Drohne Heron
جرمن فوج کے پاس ہیرون ڈرون کی پہلی قسم ہے اور ان کا استعمال مالی اور افغانستان میں کیا گیا تھاتصویر: Getty Images/AFP/J. Guez

حکمران جماعت کی تشویش

چانسلر انگیلا میرکل کی وزیر دفاع آناگریٹ کرامپ کارن باؤر کی وزارت نے اس معاملے پر رواں مہینے کے دوران ایس پی ڈی کے ساتھ کئی مرتبہ مذاکرات کیے۔ اس مذاکراتی عمل میں جرمن وزارتِ دفاع نے فوجیوں، بین الاقوامی قانون اور دفاعی شعبے کے ماہرین سمیت دوسرے سیاستدانوں کو بھی مدعو کیا۔ ان مذاکراتی نشستوں میں سبھی نے اپنا اپنا موقف بیان کیا۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمن فوج کے پاس ہیرون ڈرون کی پہلی قسم ہے اور ان کا استعمال مالی اور افغانستان میں جرمن فوج نے اپنی تعیناتی کے ایام میں کیا تھا۔ ابھی جدید ہیرون ٹی پی ڈرونز اسرائیل سے پہنچے نہیں ہیں۔ دوسری جانب کمرشل ہوائی جہاز بنانے والی انٹرنیشنل کمپنی ایئر بس بھی ہتھیاروں سے لیس 'یورو ڈرون‘ بنانے میں مصروف ہے اور اگلے سال یہ مارکیٹ میں لایا جا رہا ہے۔جرمن ہوائی اڈوں کو ڈرونز سے محفوظ بنانا مہنگا پڑے گا

فوجیوں کی بہتر حفاظت

ماہرین کا خیال ہے کہ میزائل سے لیس ڈرونز جنگی مشنز میں فوج کی نقل و حرکت اور کیمپوں کی بہتر انداز میں فضائی معاونت اور حفاظت کر سکتے ہیں۔ اس وقت کسی بھی مشکل صورت حال میں جنگی طیاروں کو طلب کیا جاتا ہے اور ان کے پہنچنے میں خاصا وقت ضائع ہو جاتا ہے۔ انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے داخلی شعبے ڈیفینس پالیسی کے ترجمان ہیننگ اوٹے کا کہنا ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی فوجیوں کو ایک مناسب تحفظ  فراہم کرتی ہے اور اس وقت برطانیہ اور فرانس کے پاس ہتھاروں سے لیس ڈرونز ہیں۔ ایس پی ڈی کی ایک اور رہنما آندرے ووسٹنرکا کہنا ہے کہ یہ درست ہے کہ ڈرونز سے فوجیوں کی زندگی کو تحفظ حاصل ہوتا ہے لیکن ان میں نصب ہتھیاروں کے استعمال کے اصولوں کو وضع کرنا بھی از حد ضروری ہے۔

کرسٹوف ہاسلباخ، ایستر فیلڈن (ع ح، ع ا)