1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن فوج کا انخلاء، افغان مترجمین کے اندیشے

16 مئی 2013

شمالی افغانستان میں قندوز کے مقام پر وفاقی جرمن فوج کے لیے کام کرنے والے افغان مترجمین آج کل احتجاج کے لیے جرمن فوج کے کیمپ کے باہر جمع ہوتے ہیں اور سوال کرتے ہیں کہ ’جرمن فوج کے انخلاء کے بعد ہمارا کیا بنے گا؟‘

https://p.dw.com/p/18Z5m
تصویر: DW/Y.Sherzad

کوئی تیس تا چالیس نوجوان افغان مترجمین نے اپنے حالات کی طرف توجہ دلانے کے لیے رواں ہفتے دوسری مرتبہ اس احتجاج میں شرکت کی۔ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے طرح طرح کے اندیشوں میں مبتلا ہیں۔ ایک طرف اُنہیں بے روزگار ہو جانے کا خطرہ ہے تو دوسری جانب اُنہیں طالبان باغیوں کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا ہے۔ اِن مترجمین کو محض اس بناء پر غدار اور لا دین سمجھا جاتا ہے کہ وہ گزشتہ کئی برسوں سے جرمن فوجیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

انہی مترجمین میں شامل اسد اللہ رضوان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’مَیں گزشتہ چار سال سے زیادہ عرصے سے قندوز کی تعمیر نو کے لیے سرگرم فوجی ٹیم کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہوں۔ اس ٹیم کے ساتھ تعاون کی پاداش میں باغیوں کا ایک گروپ مجھے اغوا کرنا چاہتا تھا۔ اُنہوں نے مجھے ٹیلیفون کیا اور مجھے دھمکیاں دیں۔‘‘

ان مترجمین کا کہنا ہے کہ اُنہیں اور اُن کے گھر والوں کو طالبان کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں
ان مترجمین کے مطابق طالبان اُنہیں اور اُن کے اہل خانہ کو دھمکیاں دے رہے ہیںتصویر: DW/Y.Sherzad

جرمن فوج کے ساتھ رضوان کے معاہدے میں گزشتہ تین ماہ سے کوئی توسیع نہیں کی گئی۔ اُس کے جرمن ساتھی اس سال کے اندر اندر واپس جرمنی چلے جائیں گے اور وہ وہیں افغانستان میں رہ جائے گا۔ رضوان کو ہی نہیں بلکہ اُس کے گھر والوں کو بھی خدشہ ہے کہ اُس کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

جرمن سیاستدانوں کی یقین دہانیاں

گزشتہ چند ہفتوں کے دوران جرمن سیاستدانوں نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں جرمن فوج کو مدد فراہم کرنے والے مقامی باشندوں کو تنہا نہ چھوڑا جائے اور اُنہیں ساتھ جرمنی لایا جائے۔ وفاقی جرمن وزیر داخلہ ہنس پیٹر فریڈرش نے ریڈیو ڈوئچ لانڈ فُنک کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں ان افغان معاونین کو جرمنی کی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا:’’انفرادی جانچ پڑتال ہو گی۔ ایک بات تو واضح ہے کہ اگر افغانستان میں کسی کو اس لیے خطرہ ہے کہ اُس نے جرمنی کے لیے کام کیا ہے یا ویسے ہی اُسے دھمکایا جا رہا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر ہمارے پاس  جرمنی آ سکتا ہے۔‘‘

قندوز میں کام کرنے والے افغان مترجم رضوان نے بتایا:’’ہم نے کئی بار جرمنوں کو اپنے حالات بتائے ہیں لیکن وہ کوئی جواب ہی نہیں دیتے۔ ہم سب جیسے اپنے اپنے گھروں میں نظر بند ہیں کیونکہ ہماری سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ہم جرمنوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی طرح سے اس مسئلے کو حل کریں۔ اگر وہ مدد نہیں کرنا چاہتے تو بھی ہمیں بتا دیں۔‘‘

جرمن فوج نے گزشتہ سال ہی اپنا فیض آباد اڈہ افغان فورسز کے حوالے کر دیا تھا
جرمن فوج نے گزشتہ سال ہی اپنا فیض آباد اڈہ افغان فورسز کے حوالے کر دیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

الزامات کے جواب میں وفاقی جرمن فوجی کی تردید

لیفٹیننٹ کرنل مارکو شمڈل ایساف کی علاقائی کمان برائے شمالی افغانستان سے وابستہ ہیں۔ وہ ان الزامات کو رَد کرتے ہیں کہ جرمن فوج اپنے افغان ملازمین کے مسائل پر توجہ نہیں دے رہی۔ ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جرمن فوج ہر معاملے کو انفرادی طور پر جانچ رہی ہے لیکن:’’فیصلہ کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ ہم اپنے ملازمین سے درخواستیں وصول کر کے آگے پہنچا دیتے ہیں۔ اس سے زیادہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘‘

اس  کے برعکس رضوان کا کہنا ہے کہ مترجمین نے ایک ہفتہ قبل بھی احتجاج کیا تھا اور اُن سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ایک ہفتے کے اندر اندر کوئی جواب آ جائے گا تاہم یہ کہ ایک ہفتے بعد بھی مکمل خاموشی ہے۔ رضوان کے مطابق زیادہ تر مترجمین میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔

تاہم جرمنی میں سرکاری محکمے عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔ وفاقی جرمن فوج کا مشن اپنی موجودہ شکل میں 2014ء کے اواخر میں ختم ہو رہا ہے۔ جرمن وزارتِ دفاع میں پارلیمانی اسٹیٹ سیکرٹری کرسٹیان شمٹ نے بتایا:’’افغانستان میں سبھی کچھ خراب نہیں ہے اور نہ ہی سب کچھ اچھا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جرمنی کی ترقیاتی سیاست میں مقامی معاونین کی ضرورت آئندہ بھی رہے گی۔

نیٹو کی کمان میں سرگرم جرمن فوج کا ایک سپاہی قندوز میں ایک عارضی چوکی پر فرائض انجام دیتے ہوئے
نیٹو کی کمان میں سرگرم جرمن فوج کا ایک سپاہی قندوز میں ایک عارضی چوکی پر فرائض انجام دیتے ہوئےتصویر: AP

کابل حکومت کی جانب سے رکاوٹیں

جہاں ان مترجمین کی ضرورت جرمن فوج کو ہے، وہاں خود کابل حکومت بھی ان کی اہمیت سے واقف ہے۔ افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان جانان موسیٰ زئی کے مطابق: ’’ہمیں ضرورت ہے اِن پڑھے لکھے تربیت یافتہ ماہرین کی، جو تجربہ اور علم رکھتے ہیں اور غیر ملکی زبانوں سے واقف ہیں۔‘‘ ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں تعمیر نو کے عمل میں ان نوجوانوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے اور اس نکتے سے اُن ملکوں کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے، جہاں یہ افغان شہری سیاسی پناہ کی درخواستیں دے رہے ہیں۔

یہ بات رضوان کے لیے ناقابل فہم ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ افغان حکومت اُسے یا اُس کے گھر والوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔ تا ہم رضوان کو زیادہ مایوسی جرمن فوج کے رویے سے ہے اور اُس کا کہنا یہ ہے کہ اگر جرمن فوج کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت اُسے یہ پتہ ہوتا کہ آگے چل کر وہ اُسے یوں بے یار و مدد گار چھوڑ دے گی تو وہ اُن کے ساتھ کام کرنا شروع ہی نہ کرتا۔

لیفٹیننٹ کرنل مارکو شمڈل کے مطابق مقامی افغان معاونین کی توقعات حد سے کہیں زیادہ ہیں اور حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ بہت سے افغان مترجمین سمجھتے ہیں کہ ’اگر آج وہ یہ کہتے ہیں کہ اُن کی زندگی خطرے میں ہے تو کل وہ جرمنی کی جانب پرواز کر جائیں گے، یہ کام اتنا آسان نہیں ہے‘۔

جرمن فوج فیض آباد مرکز کا انتظام گزشتہ سال ہی مقامی افغان سکیورٹی فورسز کے حوالے کر چکی ہے جبکہ اس سال قندوز کی باری ہے۔

W.Hasrat-Nazimi/aa/ai