1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن عوام سخت امیگریشن پالیسی کی خواہاں، جائزہ

عاطف توقیر14 دسمبر 2014

جرمن عوام کی اکثریت سمجھتی ہے کہ انگیلا میرکل کی حکومت سیاسی پناہ کے متلاشی افراد اور امیگریشن کے معاملے کو اہمیت نہیں دے رہی ہے۔ اسی تناظر میں مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں ہر ہفتے احتجاجی مارچ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1E3qd
تصویر: Reuters/Hannibal Hanschke

ایک تازہ عوامی جائزہ میں کہا گیا ہے کہ جرمن عوام کی ایک بڑی اکثریت ملک میں داخل ہونے والے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد اور غیرملکیوں کی بڑھتی تعداد پر خائف ہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت اس سلسلے میں سخت پالیسی اپنائے۔

جرمن جریدے اشپیگل کے لیے ٹی این ایس کے ایک حاليہ جائزے میں حصہ لینے والے 65 فیصد جرمن باشندوں نے ملک میں مخلوط حکومت کی امیگریشن اور سیاسی پناہ کی درخواستوں سے متعلق پالیسی پر اعتراض کیا۔ اس جائزے میں بتایا گیا ہے حکومت کو اس مسئلے کے تدارک کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔

جائزے میں ایک تہائی جرمن باشندوں نے ملک میں ’اسلامائزیشن’ یا اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے خلاف اقدامات نہ کرنے پر بھی اعتراض کیا۔ واضح رہے کہ ہر پیر کو مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں ’پیٹریاٹک یورپین اگینسٹ دی اسلامائزیشن آف دا دیسٹ‘ یا ’اسلامائزیشن اِن ویسٹ کے مخالف محبان یورپ‘ کے نعرے کے ساتھ ایک احتجاجی مارچ کیا جاتا ہے، جس کی پزیرائی میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ جرمنی کی مجموعی 81 ملین آبادی میں تقریباﹰ چار ملین مسلمان شامل ہیں۔

Deutschland PEGIDA Dresden 8.12.
ڈریسڈن مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد ہزاروں میں ہےتصویر: Reuters/Hannibal Hanschke

اسی ہفتے جمعے کے روز جرمن چانسلر میرکل نے اس مارچ میں شامل ہونے والوں کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں یا کسی بھی مذہب یا رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف نفرت کی ’جرمنی میں جگہ نہیں‘ ہے۔

انہوں نے رواں ہفتے جنوبی جرمن صوبے باویریا میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے ایک مکان پر حملے کی بھی مذمت کی۔ پولیس کو شبہ ہے کہ اس واقعے میں انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہو سکتے ہیں۔

چانسلر میرکل نے کہا کہ جرمنی میں معمر افراد کی تعداد زیادہ ہے اور ایسے میں دیگر ممالک سے باہنر افراد کی ملک میں آمد کا سلسلہ معیشت کے لیے ناگزیر ہے۔ تاہم مقامی حکام کے مطابق ملک میں سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے اصل امیگریشن دو دہائیوں کی سب سے انتہائی سطح پر پہنچ چکی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ڈریسڈن میں پیر کے روز ہونے والے اس مارچ میں مظاہرین کی تعداد دس ہزار کو چھونے لگی ہے۔ دو ماہ قبل اس مارچ کے آغاز کے موقع پر مارچ کے منتظمین کا کہنا تھا کہ وہ امیگریشن کے خلاف نہیں، تاہم اسلامی شدت پسندی اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف ہیں۔

جرمن حکام کی جانب سے خبردار کیا جا رہا ہے کہ ملک میں مسلم اور یہود مخالف جذبات پیدا ہو رہے ہیں۔ جرمنی میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے سخت گیر مسلمانوں اور مشرق وسطیٰ کے تنازعے کے تناظر میں یہودیوں پر حملوں کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔