1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ریاست باڈن وورٹمبرگ کے اسکولوں میں برقعے پر پابندی

22 جولائی 2020

جرمنی کی ریاست باڈن وورٹمبرگ میں حکام نے اب اسکول کی طالبات کے چہروں کے ڈھکنے پر بھی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ استانیوں کے نقاب یا برقع پہننے پر پہلے سے ہی یہ پابندی عائد ہے۔

https://p.dw.com/p/3ffel
London Protest vor französischer Botschaft Frau mit Niqab
تصویر: Reuters/S. Wermuth

مغربی جرمنی کی ریاست باڈن وورٹمبرگ کی حکومت نے اسکولوں میں چہرے کو مکمل طور ڈھکنے والے برقعے یا نقاب کے پہننے پر پابندی عائد کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔ نقاب سے متعلق اس نئے اصول کو ایک ایسے وقت نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جب جرمنی میں مسلمانوں کے نقاب پہننے یا پردے کے لیے پوری طرح سے چہرے کو ڈھکنے سے متعلق جہاں گرما گرم بحث جاری رہی ہے وہیں ہیمبرگ کی ایک عدالت نے شہر میں عائد اس طرح کی پابندی کو مسترد کر دیا ہے۔

باڈن وورٹمبرگ کی شہری کاؤنسل نے اسکول میں اساتذہ پر ایسے لباس پہننے پر پہلے ہی سے پابندی عائد کر رکھی ہے جس سے چہرہ مکمل طور ڈھک جاتا ہو اور اسی طرز پر اب اسکول کی طالبات کو بھی نقاب یا برقع پہننے کی اجازت نہیں ہوگی۔ ریاستی وزیر اعلی اور گرین پارٹی کے سرکردہ رہنما ونفریڈ کریٹشمن کا کہنا ہے کہ چہرے کا مکمل طور پر پردہ آزاد معاشرے کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ حالانکہ انہوں نے یہ بات بھی تسلیم کی اسکولوں میں مکمل طور پر چہرہ ڈھکنا شاذ و نادر بات ہے تاہم ان اکا دوکا واقعات کے لیے بھی فیصلہ کرنا ضروری تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کی سطح پر، جہاں طلبہ بالغ ہوتے ہیں، وہاں اس طرح کی پابندی سے متعلق سوال قدرے پیچیدہ ہے۔ فی الوقت  یہ اصول ریاست کے پرائمری اور سیکندڑی اسکولوں کے لیے ہی ہے۔

نقاب پر بحث اور گرین پارٹی میں اختلافات

جرمنی میں جو افراد نقاب پہننے یا پردے کے لیے چہرے کو مکمل طور پر ڈھکنے کی مخالفت کرتے ہیں ان کا موقف ہے کہ اس طرح کی پابندی لڑکیوں کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کیونکہ ان پر اس کے لیے زور زبردستی کرنے یا اس کی حوصلہ افزائی کرنے سے ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت میں شامل جولیا کلوکنیر سمیت قدامت پسند جماعتوں کے سرکردہ رہنما ملک گیر سطح پر برقعے یا نقاب پر پابندی کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

گرین پارٹی میں اس امر پر اختلافات بھی پائے جاتے ہیں تاہم اسکولوں میں اس پابندی کے وہ حامی ہیں اسی لیے انہوں نے اس کی حمایت کی۔ باڈن وورٹمبرگ میں گرین پارٹی کی رہنما سانڈرا ڈیٹر اور اولویئر ہلڈین برانڈ برقع اور نقاب کو ماضی میں ''جبر و ظلم کی علامت بتا چکے ہیں۔''

لیکن اس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اصول و ضوابط اور سختیوں سے جرمنی میں مسلم معاشرے کے حاشیے پر آنے کا خدشہ ہے۔ ہیمبرگ میں حال ہی میں ایک مسلم طالبہ نے اس کے خلاف کیس دائر کیا تھا اور قانونی لڑائی کے بعد عدالت نے اسے ایسے لباس کے استعمال کی اجازت دے دی تھی۔ حالانکہ عدالت نے اپنے تبصرے میں یہ بھی کہا کہ اگر سرکاری اسکولوں کے موجودہ قوانین میں تبدیلی کی

 جائے تو اس صورت میں ایسی پابندیاں بھی عائد کی جا سکتی ہیں۔ اور اب مقامی سیاست داں اس طرح کے قوانین میں تبدیلی کے لیے سرگرم ہیں۔

لیکن گرین پارٹی میں مہاجرین کے امور سے متعلق ترجمان فلز پولاٹ کا کہنا ہے کہ مذہبی طرز کے علاماتی لباس کا استعمال جمہوری سماج کا ایک اہم فیچر ہے۔

 حالیہ برسوں میں نیدر لینڈ، فرانس، ڈنمارک اور آسٹریا جیسے یورپی ممالک میں مکمل طور پر چہرے کے ڈھکنے پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ گزشتہ برس اس حوالے سے جرمنی میں ایک سروے ہوا تھا اور اس میں بھی تقریباً54 فیصد جرمن شہریوں نے برقعے پر پابندی کی حمایت کی تھی۔

ص ز / ج ا (ای پی ڈی ڈی پی اے)

جرمن ریاست میں کم عمر لڑکیوں کے اسکارف پہننےپر پابندی زیرغور

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں