جرمن ترک تنازعہ: باز گشت دوحہ میں
22 جون 2013ہفتہ بائیس جون کو یہ ملاقات ’فرینڈز آف سیریا‘ گروپ کے اجلاس کے موقع پر عمل میں آئی۔ برلن میں وزارتِ خارجہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے مسئلے پر ایک حالیہ تنازعے سے ہونے والے نقصان کو حدود میں رکھنے کے لیے کی جانے والی یہ بات چیت ’تعمیری اور دوستانہ ماحول‘ میں ہوئی۔ مزید یہ کہ دونوں وزراء نے ’شراکت اور دوستی کی سوچ کے تحت جامع تبادلہء خیال‘ کیا اور جن امور پر بات چیت کی، اُن میں یورپی یونین اور ترکی کے درمیان ’تعلقات سے متعلق تازہ ترین معاملات‘ بھی شامل تھے۔
یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے سلسلے میں مذاکرات کا ایک نیا باب آئندہ ہفتے شروع ہونے والا ہے تاہم جرمنی نے ترکی میں مظاہرین کو کچلنے کے لیے طاقت کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے ان مذاکرات کے آغاز کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ جرمنی کے اس طرزِ عمل پر ترکی کے وزیر برائے یورپی امور ایگیمان باغیس نے جمعہ 21 جون کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو انتباہ کیا کہ وہ محض ستمبر میں جرمنی میں ہونے والے عام انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت کے حوالے سے ہونے والی پیشرفت میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ ترک میڈیا کے مطابق باغیس نے کہا:’’اگر میرکل اپنے ملکی انتخابات میں کامیابی کے لیے سیاسی مواد ڈھونڈ رہی ہیں تو بہتر یہی ہے کہ یہ مواد ترکی نہ ہو۔‘‘ باغیس نے مزید کہا:’’(میرکل) دیکھیں گی کہ جس کسی نے بھی ترکی کے معاملات میں مداخلت کی، اُس کا انجام اچھا نہیں ہوا۔‘‘
جہاں ترک وزیر کے اس بیان کی وضاحت کے لیے پہلے برلن میں متعینہ ترک سفیر کو جرمن وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا، وہیں چند گھنٹے بعد ترکی نے بھی انقرہ متعینہ جرمن سفیر کو طلب کیا اور وضاحت مانگ لی۔
یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے سلسلے میں باقاعدہ مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ تقریباً تین سال سے جاری ہے تاہم اب تک کوئی ٹھوس پیشرفت نہیں ہو سکی ہے، جس کی بڑی وجہ فرانس اور جرمنی کی جانب سے کی جانے والی مزاحمت ہے۔
ترکی میں اسلامی قدامت پسند حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین کے خلاف بے رحمانہ طرز عمل روا رکھنے پر انقرہ حکومت کو یورپی یونین میں شدید تنقید کا سامنا ہے۔ گزشتہ پیر کو جرمن چانسلر میرکل نے مظاہرین کے خلاف ترک پولیس کی کارروائیوں کو، جن کے نتیجے میں چار افراد ہلاک اور ساڑھے سات ہزار زخمی ہو چکے ہیں، ’حد سے زیادہ سخت‘ قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ استنبول کے تقسیم چوک کے قریب ایک سرسبز پارک میں تعمیرات کے لیے درختوں کی کٹائی کے خلاف شروع ہونے والے یہ مظاہرے اب وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کی قیادت کے خلاف عمومی مظاہروں میں بدل چکے ہیں۔
ترک حکام نے گزشتہ دنوں کے مظاہروں میں حصہ لینے کی پاداش میں مزید 23 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ سی این این ترک نے ہفتہ بائیس جون کو بتایا کہ ان افراد پر مارکسی لیننی کمیونسٹ پارٹی MLKP کی جانب سے مظاہرے منظم کرنے اور پُر تشدد کارروائیاں کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ تین مزید مشتبہ افراد کو رہا کر دیا گیا ہے۔ نئی گرفتاریوں کے بعد مظاہروں کی وجہ سے جیل میں ڈالے جانے والے افراد کی تعداد بڑھ کر 47 ہو گئی ہے۔
اِدھر جرمن شہر کولون میں 22 جون کو ایردوآن حکومت کے خلاف ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں تیس تا چالیس ہزار افراد نے شرکت کی۔ مقررین ایردوآن سے مستعفی ہونے اور فوری طور پر نئے انتخابات منعقد کروانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
(aa/km(dpa,afp