1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن ترک تعلقات میں ’نئے باب‘ کے آغاز کی اُمید

27 ستمبر 2018

کئی برسوں کے کشیدہ تعلقات کے بعد ترک صدر نے جرمنی کے ساتھ تعلقات ازسرنو ترتیب دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ترکی کو معاشی بہتری کے لیے یورپ کی ضرورت ہے جب کہ مہاجرین کو روکنے لیے پورپ کو ترکی کا تعاون درکار ہے۔

https://p.dw.com/p/35Yoj
Türkei Präsident Erdogan
تصویر: picture-alliance/abaca

ترک صدر رجب طیب ایردوآن جمعرات سے جرمنی کے تین روزہ دورے کا آغاز کر رہے ہیں۔ برلن پہنچنے کے بعد ان کا سب سے اہم مقصد اپنے ’جرمن دوستوں‘ کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانا ہے۔ جرمنی کے مشہور روزنامے فرانکفُرٹر الگمائنے سائٹُنگ میں ترک صدر نے اپنے مہمان کالم میں زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’جرمنی اور ترکی کو اپنے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کرنا چاہیے۔‘

صدر ایردوآن نے مزید لکھا ہے، ’’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم غیر حقیقی خوف کو الگ رکھتے ہوئے مشترکہ مفادات کی بنیاد پر اپنے تعلقات کو آگے بڑھائیں۔‘‘ انہوں نے جرمن حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ تعلقات میں بہتری کے لیے گولن تحریک کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دے۔ انقرہ حکومت سن دو ہزار سولہ کی ناکام بغاوت کا الزام اسی تحریک پر عائد کرتی ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے جرمنی میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا اور دائیں بازو کی انتہاپسندی سے بھی خبردار کیا ہے۔

Deutschland - Reaktionen auf die Wahlen in der Türkei in Berlin
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zinken

دونوں ملکوں کے مابین  گزشتہ کئی برسوں سے تعلقات کشیدہ چلے آ رہے ہیں۔ جرمن حکومت کے مطابق ترکی میں آمرانہ طرز عمل میں اضافہ ہوا ہے جب کہ ترکی میں جرمن صحافیوں کی گرفتاریوں سے بھی دونوں ملک ایک دوسرے سے دور ہوئے ہیں۔ جرمن وزارت خارجہ کے مطابق اس وقت بھی پانچ جرمن شہری سیاسی بنیادوں پر ترکی میں قید ہیں۔

جرمن، ترک تعلقات میں پیشرفت

شام کی وجہ سے اس وقت ترکی کو امریکی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔ رواں برس ترک کرنسی کی قدر میں کمی واقع ہوئی ہے۔ اس پیش رفت کا نقصان ترک معیشت کو بھی اٹھانا پر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترکی اب جرمنی اور یورپی یونین کی طرف دیکھ رہا ہے تاکہ ملک میں معاشی استحکام لایا جا سکے۔

ترک صدر اپنے جرمن ہم منصب فرانک والٹر شٹائن مائیر کی دعوت پر برلن پہنچ رہے ہیں۔ جمعے کو ان کا فوجی اعزاز کے ساتھ ’ریڈ کارپٹ‘  پر استقبال کیا جائے گا جب کہ ان کی سرکاری ضیافت بھی کی جائے گی۔ وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ساتھ جرمنی میں موجود ترک گروپوں سے بھی ملاقات کریں گے۔

دوسری جانب جرمن چانسلر کی خارجہ پالیسی کے ترجمان یورگن ہارڈ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہتر معاشی تعلقات کے لیے یہ ضروری ہے کہ انقرہ حکومت قانون کی بالادستی کو ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی صورتحال میں بہتری پیدا کرے۔

دریں اثناء بہت سے جرمن سیاستدانوں کی طرف سے ترک صدر کے اس دورے کی مخالفت بھی کی جا رہی ہے اور متعدد سیاستدانوں نے ان کے لیے کی جانے والے تقریبات میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ اسی طرح جمعے کے روز برلن میں ترک صدر کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جائے گا، جس میں اندازوں کے مطابق دس ہزار افراد شریک ہو سکتے ہیں۔ ترک صدر جرمن شہر کولون میں ایک مسجد کا بھی افتتاح کریں گے۔

ا ا / ش ح