1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن برآمدات ميں زيادہ اضافہ خطے کے مفاد ميں نہيں، يورپی کميشن

عاصم سلیم14 نومبر 2013

يورپی کميشن کی جانب سے جرمن برآمدات کا تفصيلی جائزہ لينے کا فيصلہ کيا گيا ہے۔ کميشن کے بقول جرمن برآمدات ميں اضافے سے يورپی يونين کی اقتصادی بحالی اور خطے ميں بے روزگاری کو کم کرنے سے متعلق کوششيں متاثر ہونے کا امکان ہے۔

https://p.dw.com/p/1AHIe
تصویر: AP

يورپی کميشن کی ايک رپورٹ کے مطابق جرمنی سميت يورپی يونين کے ديگر پندرہ ممالک کے تجارتی اعداد و شمار ميں قرضوں، تجارت اور ٹيکس کی مد ميں چند مقامات پر ’عدم توازن‘ کے آثار ملے ہيں اور ان پر فوری طور پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت اس ليے ہے تاکہ وہ مستقبل ميں بڑے مسائل بن کر سامنے نہ آئيں۔ آئندہ برس مئی ميں کميشن کی اس رپورٹ کے نتائج کا جائزہ ليا جائے گا اور اس سے قبل ہی متعلقہ رياستوں کو احکامات جاری کيے گئے ہیں کہ وہ اس دوران اپنی پاليسيوں ميں تراميم کرتے ہوئے مناسب اقدامات اٹھائیں۔

يورپی يونين کی سب سے مستحکم معيشت کے حامل ملک جرمنی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی برآمدات ملک کی اقتصادی ترقی ميں اہم کردار ادا کر رہی ہيں تاہم برآمدات ميں اس اضافے کے ساتھ ساتھ جرمنی ميں اندرون ملک طلب زيادہ بڑھ نہیں رہی، جس پر يورپی يونين کو اعتراض ہے کيونکہ اندرون ملک طلب بڑھنے سے يورو زون اور يورپی يونين کو زيادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

اس بارے ميں بات کرتے ہوئے يورپی کميشن کے صدر يوزے مانوئل باروسو نے مندرجہ ذيل الفاظ استعمال کيے، ’’معاملہ يہ ہے کہ آيا جرمنی يورپ کی اقتصاديات ميں دوبارہ توازن پيدا کرنے کے ليے مزيد کچھ کر سکتا ہے۔‘‘

Jose Manuel Barroso PK in Brüssel
يورپی کميشن کے صدر يوزے مانوئل باروسوتصویر: picture-alliance/dpa

يورپی يونين کی رياستوں کی انفرادی معاشی پاليسيوں پر نظر ثانی کے مطالبات سامنے رکھتے ہوئے، کميشن کے صدر نے واضح کيا کہ ایسا نہیں ہے کہ ای یو رکن ریاستوں کی حکومتوں کی جگہ لینے کی کوشش میں ہے بلکہ اس کوشش کا مقصد خطے ميں ملازمت کے مواقع اور ترقی کے ليے سرحد پار تعاون کے ايک نئے باب کو شروع کرنا ہے۔

يورپی کميشن کی اس رپورٹ ميں جرمنی کے ’کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس‘ پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہيں، جو گزشتہ چند برسوں سے لگاتار ملکی مجموعی قومی پيداوار کے چھ فيصد سے زائد چلا آ رہا ہے۔ اس سے ايسے خدشات جنم ليتے ہيں کہ جرمن معيشت کا کافی زيادہ دارومدار برآمدات پر ہے۔ يورپی يونين کے اہلکاروں کا يہ بھی ماننا ہے کہ يہ شرح اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ جرمنی کی قومی بچت ميں سے زيادہ رقم ممکنہ طور پر ملک ميں سرمايہ کاری کے ليے استعمال نہيں کی جا رہی۔

دوسری جانب دارالحکومت برلن ميں چانسلر انگيلا ميرکل کی جماعت کرسچن ڈيموکريٹک يونين اور ايک اور جماعت سوشل ڈيموکريٹس، جن کے ساتھ ميرکل ان دنوں وسیع تر مخلوط حکومت کے قيام کے ليے مذاکرات بھی کر رہی ہيں، دونوں ہی نے جرمن برآمدات پر اس تنقيد کو مسترد کر ديا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس يورپی يونين کے تيرہ ممالک کو ’تفصيلی جائزے‘ کے ليے چنا گيا تھا، جن ميں بيلجيم، برطانيہ، بلغاريہ، ڈنمارک، فن لينڈ، فرانس، ہنگری، اٹلی، مالٹا، ہالينڈ اور سلووينيا بھی شامل تھے۔ اس وقت اسپين اور سلووينيا کو سب سے زيادہ مسائل والے ملک قرار ديا گيا تھا اور انہيں اس سلسلے ميں فوری اقدامات کرنے کے ليے بھی کہا گيا تھا۔ بدھ تيرہ نومبر کو کميشن نے قرضوں، تجارت اور ٹيکس کی مد ميں چند مقامات پر عدم توازن کے سبب اس فہرست ميں جرمنی، کروشيا اور لگسمبرگ کو بھی شامل کر ليا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید