1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن انتخابات کی گھڑی قریب آن پہنچی، تازہ سروے

برنڈ گریسلر/ کشور مصطفیٰ20 ستمبر 2013

اتوار 22 ستمبر کو پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے پہلے ہی انگیلا میرکل کی چانسلر شپ کی تیسری مدت محفوظ ہونے کے آثار نمایاں نظر آ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/19l8j
تصویر: imago/Manngold

تاہم سوال یہ ہے کہ اُن کی کرسچن ڈیمو کریٹک پارٹی کس جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی۔ زیادہ تر جرمن باشندے سوشل ڈیمو کریٹس کے ساتھ حکومتی اتحاد کے خواہشمند ہیں۔

پارلیمانی انتخابات کے انعقاد سے تین روز قبل کروڑوں جرمن باشندوں کے لیٹر باکس میں ایک خط پہنچ چکا ہے جس پر کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سی ڈی یو کی صدر اور موجودہ چانسلر انگیلا میرکل کے دستخط موجود ہیں۔ خط میں درج ہے، ’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آئندہ بھی آپ کی چانسلر کی حیثیت سے کام کروں، تو برائے مہربانی آپ اتوار کو اپنا حق رائے دہی ضرور استعمال کریں اور اپنے دونوں ووٹ سی ڈی یو کو دیں۔‘‘ اس تحریر کے آخری چار الفاظ جلی حروف میں لکھے ہوئے ہیں۔

میرکل کی اس مہنگی انتخابی مہم کا مقصد دراصل فری ڈیمو کریٹک پارٹی ایف پی ڈی کی طرف سے کرسچن ڈیمو کریٹس کے ووٹ بینک کو اپنی طرف کھینچنے کی سخت مہم کا جواب ہے۔ ایف ڈی پی، جسے جرمن صوبے باویریا کے صوبائی انتخابات میں ہونے والی مایوسی نے پارلیمانی انتخابات میں حقیقی معنوں میں پریشانی سے دو چار کر دیا ہے، پوری کوشش کر رہی ہے کہ کسی طرح اُسے پارلیمان میں شامل رہنے کے لیے درکار پانچ فیصد لازمی ووٹ مل جائیں۔ اُدھر سی ڈی یو کے مرکز سے یہی پیغام دہرایا جا رہا ہے کہ ’’ہر کوئی اپنے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔

ایس پی ڈی کے لیڈر، چانسلر کے عہدے کے امیدوار شٹائن بروک
ایس پی ڈی کے لیڈر، چانسلر کے عہدے کے امیدوار شٹائن بروکتصویر: John Macdougall/AFP/Getty Images

میرکل ایک کمزور اتحادی کے ساتھ نتھی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتیں اور نہ ہی اسے ضروری سمجھتی ہیں۔ ایک ایسی اتحادی پارٹی جسے تازہ ترین عوامی جائزے کے مطابق بمشکل پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ ملنے کی امید ہے۔ رائے عامہ پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ اتوار کی ووٹنگ میں کرسچن ڈیمو کریٹس کی جماعت سی ڈی یو اورفری ڈیموکریٹس کی ایف ڈی پی کو اپوزیشن جماعتوں کے مقابلے میں حد سے حد ایک فیصد زیادہ ووٹ ملنے کی امید ہے۔ یہ فرق اتنا تھوڑا ہے کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ موجودہ حکومتی اتحاد ہی آئندہ حکومت بنا سکے گا یا نہیں۔

بائیں بازو کا اتحاد انتخابی مہم میں بے حقیقت

تازہ ترین عوامی جائزے کے مطابق سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی ایس پی ڈی اور ماحول پسندوں کی گرین پارٹی کو مجموعی طور پر زیادہ سے زیادہ 36 فیصد ووٹ ملنے کی امید ہے۔ سب سے زیادہ جس بات کا امکان ہے وہ میڈیا اور سیاسی امور کے ماہرین میں سب سے زیادہ غیر مقبول مگر جرمن شہریوں کی ترجیح یعنی برلن کی دونوں بڑی عوامی سیاسی جماعتوں کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی مخلوط حکومت کا قیام ہے۔ تاہم میرکل کے ساتھ یا اشٹائن بروک کے بغیر، اندر اندر سوشل ڈیمو کریٹس سی ڈی یو اور سی ایس یو کے ساتھ ایک نئے طرز کے اتحاد کے ساتھ مخلوط حکومت کی تشکیل کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ انہیں یہ تجربہ 2005ء سے 2009ء کے درمیان ہو چکا ہے۔ تاہم خود ایس پی ڈی کے اندر اس بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اب ایس پی ڈی اس امر پر غور کر رہی ہے کہ آیا اتحاد کی تجدید کے بارے میں پارٹی اراکین کا ریفرنڈم کروایا جائے۔ کیونکہ اُصولی طور پر سوشل ڈیموکریٹس گرین پارٹی اور بائیں بازو کی جماعت ڈی لنکے کے ساتھ مخلوط حکومت بنا کر میرکل حکومت کا صفایہ کر سکتی ہیں۔

انگیلا میرکل اپنی انتخابی مہم کے دوران
انگیلا میرکل اپنی انتخابی مہم کے دورانتصویر: picture-alliance/dpa

یورو بحران کی بدولت اور بہت کم اکثریت سے

تمام تر عوامی جائزوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ اکثریتی عوام میرکل کی سربراہی میں سی ڈی یو اور ایس پی ڈی کی بڑی مخلوط حکومت ہی چاہ رہے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس طرح ’سماجی مساوات‘ اور ’ یورو کا تحفظ‘ دونوں اہم ترین موضوعات ایک ساتھ زیر غور رہیں گے۔ گرچہ کرسچن ڈیموکریٹک یونین سی ڈی یو کی صدر انگیلا میرکل حال ہی میں کہہ چُکی ہیں کہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی یورپی سیاست کے ضمن میں ناقابل بھروسہ ہے تاہم اسے انتخابی مہم کی بیان بازی سمجھنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں کے دوران سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی نے متعدد یورو امدادی پیکج کو کرسچن ڈیموکریٹک پارٹی سی ڈی یو کے ساتھ مل کر جرمن پارلیمان تک پہنچایا ہے۔