جرمن اخبارات کی نظر میں گزشتہ ہفتے کا جنوبی ایشیا
6 مارچ 2011پاکستانی وفاقی حکومت کے واحد مسیحی وزیر کے قتل پر جرمن اخبارات میں تنقید اور غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہے۔ جرمن اخبار ’اوسنا بروکر سائٹُنگ‘ کے ایک تبصرے میں لکھا گیا ہے۔ ’’بھٹی کی ہلاکت یقینی تھی کیونکہ وہ واحد بہادر انسان تھے، جو انتہا پسندی کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے تھے۔ بھٹی نے ناموس رسالت کے قانون پر تنقید کی تھی۔ شہباز بھٹی توہین رسالت کے مرتکب ہونے والوں کے لیے سزائے موت کے بھی مخالف تھے۔‘‘ اخبار کے مطابق گو کہ ابھی تک کسی کو بھی سرکاری طور پر سزائے موت نہیں دی گئی لیکن جو بھی ایسا کرتا ہے، وہ موت کے خطرے سے دوچار ہو جاتا ہے۔
اخبار ’ویسٹ فالن بلاٹ بیلے فیلڈ‘ میں لکھا گیا ہے کہ مصر، تیونس اور لیبیا میں آنے والے جمہوری انقلابات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی انتہا پسندوں کو شکست کا سامنا ہے لیکن پاکستان میں اقلیتی امور کے وفاقی وزیر کے قتل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔ اخبار کے مطابق ناموس رسالت کے قانون میں تبدیلی کی حمایت کرنے پر، گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے بعد یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے، جس میں ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کو قتل کیا گیا ہے۔
اخبار ’زوڈ ڈوئچے‘ اپنے ایک تبصرے میں لکھتا ہے کہ القاعدہ کے حامی مقامی طالبان عسکریت پسندوں نے پورے ملک میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ تبصرے میں لکھا گیا ہے، ’’پاکستان میں دہشت گردی کا راج ہے۔ بنیاد پرستوں نے کمان اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اور پاکستان کو تاریکی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان میں ایک جمہوری حکومت اور مضبوط فوج موجود ہے لیکن سڑکوں پر لڑی جانے والی جنگ فیصلہ کن ہے۔‘‘ اخبار کے مطابق مغرب کے لیے اس سے بری خبر کوئی نہیں ہو سکتی کہ پاکستان بتدریج بنیاد پرستوں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے۔
اخبار ’برلینر ٹاگیز سائٹنگ‘ میں بھی شہباز بھٹی کے قتل ہی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق پاکستان میں مذہبی تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اخبار کے مطابق مغربی دُنیا اور امریکہ، پاکستان جیسے اہم اتحادی کو ناراض کرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے۔ افغانستان جنگ میں پاکستان امریکہ کا انتہائی اہم اتحادی ہے۔ مغربی دنیا کو چاہیے کہ پاکستان کے ساتھ صرف ایک جنگی اتحادی کی بجائے ایک سیاسی اتحادی جیسا سلوک کیا جائے۔‘‘
اخبار ’رائنشے پوسٹ‘ میں لکھا گیا ہے کہ صرف مذہبی طبقہ ہی پاکستان کے مسائل کی سبب نہیں ہے بلکہ مسائل کے اصل ذمہ دار کرپٹ اور نا اہل سیاستدان ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں غربت، انتہا پسندی اور ناانصافی تینوں چیزیں جمع ہو چکی ہیں۔ اخبار کے مطابق پاکستان کی ہر لحاظ سے تشکیل نو ہونی چاہیے اور اس معاملے میں مغربی دنیا کو پاکستان کی مدد کرنی چاہیے اور یہ کہ پاکستان کی مدد کرنا مغربی ممالک کے اپنے ہی مفاد میں ہے۔ اگر مدد نہ کی گئی تو ایٹمی پاکستان انتہا پسندوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔
اخبار زوڈ ڈوئچے کے مطابق پاکستان میں گرفتار امریکی سی آئی اے اہلکار کا معاملہ انتہائی پیچیدہ ہو چکا ہے۔ پاکستان اور امریکہ دونوں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہیں مگر دونوں ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے، جس کی ایک جھلک ریمنڈ ڈیوس کیس میں بھی نظر آتی ہے۔ اسلام آباد حکومت کو انتہائی مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ اگر ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہیں کیا جاتا تو پاکستان کے لیے امریکی امداد پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے اور اگر اسے رہا کر دیا جاتا ہے تو سڑکوں پر احتجاج کرتے عوام حکومت کا تختہ بھی الٹ سکتے ہیں۔
سامعین اب رخ کرتے ہیں بھارت کا اور سنتے ہیں کہ اس کے بارے میں جرمن اخبارات میں کیا لکھا گیا ہے۔
جرمن اخبار ’فائنانشل ٹائمز‘ کے مطابق بھارتی معیشت انتہائی تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے۔ لیکن اشیائے خوردو نوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے بھارتی حکومت کی پریشان کر رکھا ہے۔ اسی مسئلے سے نمٹنے کے لیے حال ہی میں اگلے مالی سال کے لیے اعلان کردہ بجٹ میں سماجی شعبے میں مختص رقوم میں 17 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں غذا کی قلت اور بھوک جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک قومی ’فوڈ سکیورٹی بل‘ پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق بھارتی حکومت نے غربت کے خاتمے کے لیے اب بھی اربوں روپے مختص کر رکھے ہیں لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔ مختص رقوم کا زیادہ تر حصہ کرپٹ سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔
’برلینر ٹاگیز سائٹنگ‘ میں بھارت میں ہونے والی مردم شماری کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق دو اعشاریہ سات ملین بھارتی اساتذہ اور سرکاری ملازمیں نے مردم شماری کے لیے گھر گھر جا کر اعداد و شمار حاصل کیے۔
اخبار ’نوئے زیوریشر سائٹنگ‘ میں بھارت اور جاپان کے دوطرفہ معاشی تعلقات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق وسط فروری میں جاپان اور بھارت نے دو طرفہ اقتصادی شراکت کے معاہدے پر دستخط کیے۔ مالیاتی حجم کے لحاظ سے گزشتہ دو دہائیوں سے جاپان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر چین ہے اور شاید چین ہی رہے گا۔ لیکن جاپانی غیر ملکی اقتصادی پالیسیوں کی توجہ کا مرکز اب بھارت بھی بنتا جا رہا ہے۔
اخبار’ فرانکفرٹر الگمائنے سائٹنگ‘ نے لکھا ہے کہ کئی ماہ کے سیاسی دباؤ کے بعد بالآخر گرامین بینک کے بانی ڈاکٹر محمد یونس کو ان کے عہدے سے بر طرف کر دیا گیا ہے۔ اخبار کے مطابق یہ برطرفی یونس اور شیخ حسینہ کے درمیان ہونے والی سیاسی لڑائی کا نتیجہ ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ یونس سن 2007ء میں اپنی ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھنا چاہتے تھے۔
ترتیب: آنا لیہمان / ترجمہ: امتیاز احمد
ادارت: امجد علی