1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن آئین کے ستر برس، پارلیمانی بحث: ’ہٹلر اور پرندے کی بیٹ‘

مقبول ملک مارسیل فیورسٹیناؤ / ک م
17 مئی 2019

وفاقی جرمن پارلیمان میں اسی ماہ ملکی بنیادی آئین کے ستر برس مکمل ہونے پر ارکان نے سولہ مئی کو دو گھنٹے تک ایک بحث میں حصہ لیا۔ بحث کے دوران دائیں بازو کے عوامیت پسند ارکان کے موقف کے باعث صورت حال کھچاؤ کا شکار ہو گئی۔

https://p.dw.com/p/3IedL
تصویر: Imago Images/C. Ohde

وفاقی جمہوریہ جرمنی کا آئین اصطلاحاﹰ ’بنیادی قانون‘ کہلاتا ہے، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد اتحادی طاقتوں کے قبضے کے دور میں وجود میں آنے والی موجودہ جرمن ریاست کی اساس ہے۔ اس آئین کی پہلی شق ہی یہ کہتی ہے کہ انسانی وقار کی کسی بھی حالت میں نفی نہیں کی جا سکتی۔ اسی لیے یہ آئینی شق پارلیمان میں ہونے والی کئی بحثوں میں بار بار حوالے کے طور پر بھی سننے میں آتی ہے۔

آئین کی پہلی شق کی اہمیت

ایوان میں بحث کا آغاز چانسلر میرکل کی پارٹی کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو اور اس کی ہم خیال صوبے باویریا کی جماعت کرسچین سوشل یونین یا سی ایس یو پر مشتمل مشترکہ پارلیمانی حزب کے سربراہ رالف برِنک ہاؤس کی تقریر سے ہوا۔

انہوں نے اور ان کے بعد تقریریں کرنے والے کئی مقررین نے کہا کہ بنیادی قانون کے ستر برس کی تکمیل ایک خوش کن سنگ میل ہے، جس دوران جرمن قوم نے اپنی ان غلطیوں اور شرم ناک فیصلوں کا احساس کرتے ہوئے ان سے سبق بھی سیکھے، جن کا ارتکاب نازی دور میں کیا گیا تھا۔

ان میں سے اہم ترین سبق آج تک یہی ہے: ’’انسانی وقار کی کسی بھی حالت میں نفی نہیں کی جا سکتی۔‘‘

اشارہ اے ایف ڈی کی طرف

اپنی تقریر میں رالف برِنک ہاؤس نے بین السطور میں یہ تنبیہ بھی کی کہ یہی جرمن آئین واضح طور پر اس بات کی بھی نفی کرتا ہے کہ پارلیمان کو، جو ریاست کا ایک آئینی ادارہ ہے، اس کی کارکردگی کے حوالے سے کمزور بنایا جائے اور یوں ریاست کو بھی کمزور کر دیا جائے۔ تب ایوان میں موجود تمام اراکین اور مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے ہوئے ہر فرد نے اندازہ لگا لیا تھا کہ سی ڈی یو اور سی ایس یو کے پارلیمانی حزب کے سربراہ کا اشارہ انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند جرمن سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار ڈوئچ لینڈ یا اے ایف ڈی کی طرف تھا، جس کے اپنے ارکان بھی اس وقت بنڈس ٹاگ میں اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔

Bundestag - Debatte zu 70 Jahre Grundgesetz - Ralph Brinkhaus
رالف برِنک ہاؤس بنڈس ٹاگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/dpa/B. v. Jutrczenka

اے ایف ڈی گزشتہ وفاقی الیکشن کے بعد پہلی مرتبہ ملکی پارلیمان میں پہنچی تھی۔ سیاسی طور پر یہ سچ ہے کہ جب سے اے ایف ڈی کے منتخب ارکان پہلی بار وفاقی جرمن پارلیمان میں پہنچے ہیں، تب سے ایوان میں ہونے والی بحثوں کا لہجہ تیز اور بہت تیکھا ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ اے ایف ڈی کے ارکان کا یہ خیال بھی ہے کہ انہیں بار بار ایسے بالواسطہ الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جیسے وہ اس پارلیمانی ادارے کے وقار کو نقصان پہنچا رہے ہوں۔

عوامیت پسند پارٹی کے رہنما کا خطاب

پھر اے ایف ڈی کے پارلیمانی حزب کے سربراہ آلیکسانڈر گاؤلینڈ نے اپنا خطاب کیا، جن کی عمر اس وقت 78 برس ہے۔ وہ ماضی میں 40 برس تک سی ڈی یو کے رکن رہے تھے اور پھر 2013ء میں ’متبادل برائے جرمنی‘ نامی اس رائٹ ونگ پاپولسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے تھے، جس کی بنیاد بھی اسی سال رکھی گئی تھی۔ گاؤلینڈ ماضی میں بڑی مہذب سیاسی تقریریں کرتے تھے لیکن اب وہ اپنے سیاسی خطابات میں اکثر ایسی حدود بھی پار کر جاتے ہیں، جنہیں تاحال شجر ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ اے ایف ڈی کے پارلیمانی حزب کے سربراہ آلیکسانڈر گاؤلینڈ کبھی کبھی بہت حساس موضوعات پر بھی بڑی حیران کن باتیں دانستہ طور پر کرتے ہیں۔

Bundestag - Debatte zu 70 Jahre Grundgesetz: Alice Weidel und Alexander Gauland
اے ایف ڈی کے گاؤلینڈ (سامنے، دائیں) بنڈس ٹاگ کے اجلاس کے دورانتصویر: Reuters/F. Bensch

ہٹلر دور ’ایک پرندے کی بیٹ‘ جیسا

گاؤلینڈ کی سیاسی سوچ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے بقول’جرمنی کی ہزار سال سے بھی زیادہ طویل عرصے پر محیط شاندار تاریخ‘ میں ہٹلر اور اس کے نازی دور کی حیثیت ’کسی پرندے کی بیٹ‘ سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ بات کہتے ہوئے نہ صرف گاؤلینڈ کو باقاعدہ احساس تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ ساتھ ہی انہوں نے ہٹلر اور نازی دور کے ان خوفناک جرائم کو بھی معمولی بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی، جو مجموعی طور پر کروڑوں انسانوں کی ہلاکت کا باعث بنے تھے اور یہودیوں کی مکمل نسل کشی کی ایک نپی تلی کوشش بھی تھے۔

اپنی جماعت کے نام کا ذکر ہی نہیں

گاؤ لینڈ کے بقول جرمنی میں آج بھی آئین کی بالادستی کے کئی دشمن ہیں، جن میں دائیں باز وکے انتہا پسند بھی شامل ہیں، بائیں بازو کی شدت پسند قوتیں بھی اور، ان کے بقول، جرمنی میں آباد مسلمانوں کی آبادی کا ایک حصہ بھی۔

لیکن جس بات کا ذکر اے ایف ڈی کے اس رہنما نے بالکل نہیں کیا وہ یہ تھی کہ خود ان کی اپنی جماعت ’متبادل برائے جرمنی‘ بھی ایک ایسی پارٹی ہے، جس کی جرمنی میں داخلی انٹیلیجنس کے نگران ادارے بی ایف وی کی طرف بڑے قریب سے نگرانی کی جا رہی ہے۔

تاریخ سے سبق سیکھنا ممکن ہے

جہاں تک جرمنی کے بنیادی آئین کے ستر برس مکمل ہونے کی بات ہے تو بنڈس ٹاگ کہلانے والے وفاقی جرمن ایوان زیریں میں بہت سے منتخب ارکان نے زور دے کر کہا کہ یہی بنیادی قانون جرمن تاریخ کی عظیم ترین کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

اس کے علاوہ اگرچہ کئی مؤرخین نے یہ بھی کہا ہے کہ انسان بالعموم تاریخ سے کچھ نہیں سیکھتا، تاہم بنیادی جرمن قانون وہ سچائی بھی ہے، جس کی مدد سے ایسے مؤرخین کے اس طرح کے تمام دعوے بھی غلط ثابت ہو چکے ہیں۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے چند برس بعد اس دور کی صرف مغربی جرمن حصے پر مشتمل ریاست وفاقی جمہوریہ جرمنی میں ریاستی آئین کے طور پر بنیادی قانون کا نفاذ 23 مئی 1949ء کو ہوا تھا اور اس ماہ کی 23 تاریخ یعنی آئندہ ہفتے جمعرات کے دن ملک میں اس آئین کے نفاذ کے ٹھیک 70 برس پورے ہو جائیں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں