1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جدید غلامی کے شکار کروڑوں انسان، کن ممالک میں سب سے زیادہ

23 اگست 2020

آج کے دور میں دنیا کے کم از کم چالیس ملین یا چار کروڑ انسان ایسے ہیں، جو جدید غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں ریکارڈ حد تک زیادہ ہے اور غلاموں کی یہ عالمگیر تجارت مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/32J8P
لیبیا میں انسانوں کی تجارت اور جدید غلامی کے خلاف ایک مظاہرے کے شرکاءتصویر: Getty Images/AFP/G. Khan

آج کی بظاہر جدید، ترقی یافتہ اور باشعور دنیا میں کم ازکم بھی چار کروڑ انسان ایسے ہیں، جن کی تعداد متواتر اس لیے بڑھتی جا رہی ہے کہ دنیا کے بہت سے خطوں میں غربت، مسلح تنازعات اور طرح طرح کے خونریز بحران جدید غلامی کے ماحول کو ہوا دیتے ہی جا رہے ہیں۔

جدید غلامی کی مختلف شکلیں

اس جدید غلامی کی کئی شکلیں ہیں، جن میں فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور زرعی فارموں اور ماہی گیری کے شعبے میں کام کرنے والے مردوں کے علاوہ وہ خواتین بھی شامل ہیں جن سے جبراﹰ جسم فروشی کرائی جاتی ہے۔ یہی نہیں جدید غلامی کی انہی صورتوں میں وہ انسان بھی شامل ہیں، جن کے جسمانی اعضاء بیچ دیے جاتے ہیں اور وہ بچے بھی جن سے سڑکوں پر بھیک منگوائی جاتی ہے یا جن کی کم سنی میں زبردستی شادیاں کرا دی جاتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: بھارت: دس سال تک کی بچیاں جسم فروشی پر مجبور

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کروڑوں انسانوں کو جدید غلامی کی مختلف شکلوں کے ساتھ ان کی شخصی آزادیوں اور بنیادی حقوق سے محروم کر دینے اور ان کا مسلسل استحصال کرتے رہنے کا یہ عمل انسانوں کی اسمگلنگ کی وجہ سے بھی پھیلتا ہی جا رہا ہے، جس سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر فعال جرائم پیشہ گروہ مضبوط ہوتے جاتے ہیں اور انہیں ہر سال قریب 150 ارب ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔

Pakistan Arbeiter Schulden Sklaverei Arbeitsbedingungen
پاکستان میں 1.7 فیصد یا قریب 3.2 ملین شہری جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan

جدید غلامی کی سب سے زیادہ شرح کن ممالک میں

اس رپورٹ کے مطابق مشرقی بعید کی کمیونسٹ ریاست شمالی کوریا اور افریقہ میں اریٹریا اور برونڈی ایسے ممالک ہیں، جہاں انسانوں کو جدید غلامی کی زندگی پر مجبور کیے جانے کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ دوسری طرف آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو سب سے بڑے ممالک، چین اور بھارت اور ان کے علاوہ جنوبی ایشیا میں پاکستان بھی ایک ایسا ملک ہے، جہاں جدید غلامی سے متاثرہ انسانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے: انسانوں کا چڑیا گھر، فسانہ نہیں حقیقت

ان پریشان کن حالات نے اقوام متحدہ کو بھی مجبور کر دیا کہ وہ جدید غلامی کی ان شکلوں کے خاتمے کے لیے باقاعدہ اقدامات کرے۔ اسی لیے اس عالمی ادارے نے تیس جولائی کو انسانوں کی تجارت کے خاتمے کی کوششوں کا عالمی دن قرار دے دیا۔ آج منائے جانے والے اس دن کا مقصد دنیا سے جبری مشقت اور جدید غلامی کے سن 2030ء تک خاتمے کو یقینی بنانا ہے۔

Infografik Produkte moderner Sklaverei EN

انسانوں کی جدید غلامی سے متعلق چند بنیادی حقائق

انسانوں کی اسمگلنگ اور تجارت ان کے استحصال اور جدید غلامی کی جن  شکلوں کے لیے کی جاتی ہے، ان میں جبری جسم فروشی، جبری مشقت، بھیک منگوانا، گھریلو ملازموں کے طور پر غلاموں کا سا برتاؤ، جبری شادیاں اور جسم کے مختلف اعضاء نکال لینا زیادہ بڑے مجرمانہ مقاصد ہیں۔

۔    گزشتہ چند برسوں سے انسانوں کی اسمگلنگ اور تجارت کا منظر نامہ کافی بدل چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایک دہائی پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ سے زیادہ مرد اور بچے بھی اس جرم کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، جن سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے۔

۔    اس وقت دنیا بھر میں جدید غلامی کے شکار انسانوں کی تعداد 40 ملین یا چار کروڑ بنتی ہے۔ ان میں سے 25 ملین یا ڈھائی کروڑ سے جبری مشقت کرائی جاتی ہے جبکہ 15 ملین یا ڈیڑھ کروڑ کی جبری شادیاں کرائی جا چکی ہیں۔

۔    جدید دور کے غلام بنا لیے گئے ان کروڑوں انسانوں میں سے قریب تین چوتھائی خواتین یا لڑکیاں ہیں جبکہ ایسا ہر چوتھا انسان کوئی نہ کوئی نابالغ لڑکا یا لڑکی ہے۔

۔    جدید غلامی کی سب سے زیادہ اور مروجہ شکلیں پہلے براعظم افریقہ کے مختلف ممالک اور ان کے بعد ایشیا اور بحرالکاہل کے علاقے کے ممالک میں پائی جاتی ہیں۔

Bündel von US Dollarnoten Symbolbild Geld Währung Geldscheine
انسانوں کی اسمگلنگ سے اسمگلروں اور جدید غلاموں سے مشقت لینے والوں کو سالانہ قریب 150 ارب ڈالر کی ناجائز آمدنی ہوتی ہےتصویر: picture-alliance/John Greve

۔    پوری دنیا میں جس ایک ملک میں سب سے زیادہ انسان جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ شمالی کوریا ہے، جہاں ایسے انسانوں کی تعداد ملک کی مجموعی آبادی کا قریب 10 فیصد بنتی ہے۔ اس کے بعد 9.3 فیصد کے ساتھ اریٹریا اور چار فیصد کے ساتھ برونڈی کا نام آتا ہے۔

۔    پاکستان میں 1.7 فیصد یا قریب 3.2 ملین شہری جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایران میں یہ شرح 1.6 فیصد بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: غلامی کی نئی شکل؟ خلیجی عرب ملکوں میں مزدوروں کی حالتِ زار

۔    دنیا بھر میں جس ایک ملک میں سب سے زیادہ انسان جدید غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ بھارت ہے۔ جنوبی ایشیا کی اس ریاست میں ایسے انسانوں کی تعداد آٹھ ملین یا 80 لاکھ بنتی ہے۔

۔    انسانوں کی اسمگلنگ عالمی سطح پر ایک ایسا گھناؤنا کاروبار ہے، جس کی وجہ سے انسانوں کے اسمگلروں کے جرائم پیشہ گروہوں اور ایسے انسانوں سے غلاموں کی طرح مشقت لینے والوں کو سالانہ قریب 150 ارب ڈالر کی ناجائز آمدنی ہوتی ہے۔

م م / ع ب / اقوام متحدہ، تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں