جدید انسان یورپ سے بہت پہلے ایشیا پہنچا تھا، نئی تحقیق
15 اکتوبر 2015جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق دیگر ماہرین کے علاوہ یونیورسٹی کالج لندن اور انسٹیٹیوٹ آف ورٹِبریٹ پیلیئنٹولوجی اینڈ پیلیئنتھروپولوجی بیجنگ کے ماہرین نے 47 دانتوں کا تجزیہ کیا۔ ان ماہرین کے مطابق جدید انسان یورپ پہنچنے سے پہلے براعظم ایشیا کے کافی اندر تک پہنچ چکا تھا۔
تحقیقی جریدے نیچر میں چھپنے والے ایک نئی تحقیق کے نتائج کے مطابق یہ دانت چینی صوبہ ہونان کے علاقے ڈاؤکسین کاؤنٹی کی لائم اسٹون کی غاروں سے ملے تھے۔ یونیورسٹی کالج لندن کی محققہ ماریا مارٹینن ٹوریس کے بقول، ’’یہ بات بہت واضح تھی کہ یہ دانت ’ہومو سیپیئنز‘ کے تھے ۔۔۔ اور یہ موجودہ دور کے جدید انسانوں کی آبادیوں سے بہت ملتے جلتے تھے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ انہوں نے ایسے دانت دیکھے ہیں جو 80 ہزار برس سے لے کر ایک لاکھ بیس ہزار سال تک پرانے ہیں۔
ان دانتوں کی اصل عمر بالکل درست طور پر معلوم نہیں ہو سکی تاہم غار میں موجود معدنیات اور دیگر جانوروں کی باقیات کے تجزیے سے ان کے بارے میں اندازہ لگایا گیا ہے۔
ماریا مارٹینن ٹوریس کے مطابق، ’’روایتی نظریہ ہے کہ انسانوں نے افریقہ کو محض 50 ہزار برس قبل چھوڑا تھا۔‘‘ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان اندازوں سے بہت پہلے وہاں سے نکل کر اس علاقے تک پھیل چکے تھے، جس کے بارے میں اب تک سوچا ہی نہیں گیا تھا۔
’دی نیچر‘ میں چھپنے والی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’ہماری تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جدید انسان یورپ سے قریب 30 ہزار سے 70 ہزار برس قبل ہی جنوبی چین میں موجود تھے۔‘‘
یورپ میں نیندرتھال کی موجودگی شاید ایک وجہ ہو سکتی ہے جس کے باعث ’ہومو سیپیئنز‘ اس براعظم میں زیادہ اندر تک نہ پہنچ سکے۔ ماریا مارٹینن ٹوریس کہتی ہیں، ’’ہو سکتا ہے کہ نیندرتھال کی موجودگی کی وجہ سے یہ یورپ میں داخل ہی نہ ہوئے ہوں ۔۔۔ اور تب یورپ دونوں کی بیک وقت موجودگی کے لیے ناکافی جگہ رہا ہو۔‘‘