1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جدہ کا رمضان ثقافتی بازار: عرب ثقافت کا علمبردار

عابد حسین12 جولائی 2015

بحیرہ احمر پر واقع سعودی عرب کے بندرگاہی شہر جدہ کے تاریخی اور قدیمی اولڈ کوارٹر میں ماہِ رمضان کے دوران ثقافتی بازار کی سرگرمیاں معدوم ہونے لگی تھی۔ رواں برس حکومت نے اِس کی سرپرستی کرتے ہوئے اِسے نئی زندگی دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FxSK
تصویر: picture-alliance/AP/Manish Swarup

گزشتہ برس اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے جدہ شہر کے قدیمی حصے کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا تھا۔ اِس حصے کو البلد کہا جاتا ہے۔ جدہ کی صوبائی حکومت نے اِس اعزاز کے بعد اِس حصے میں سجنے والے تاریخی ثقافتی فیسٹیول کی سرپرستی کا فیصلہ کیا۔ مبصرین کے مطابق رمضان میں دنیا بھر سے زائرین مکہ اور مدینہ کے مقدس مقامات پر حاضری دیتے ہیں اور جدہ میں اِسی مہینے میں ایک نئی سیاحتی سرگرمی کو یقینی طور پر تقویت حاصل ہو گی۔ جدہ کے قدیمی حصے میں رمضان فیسٹیول کا آغاز اٹھارہ جون سے ہوا تھا۔ ماضی میں بھی اِس ثقافتی میلے کا آغاز پہلی رمضان سے ہوا کرتا تھا۔ اب مکہ اور مدینہ کے زائرین اضافی وقت میں جدہ کے میلے کو بھی دیکھنے جا سکتے ہیں۔

Kingdom Tower Dschidda
جدید جدہ کا ایک منظرتصویر: AP

یونیسکو کی جانب سے جدہ کے قدیمی حصے کو عالمی ورثہ قرار دینے کے بعد اِس کو بین الاقوامیت حاصل ہو گئی ہے۔ جدہ کے نائب گورنر محمد الوفی کا کہنا ہے کہ اِس سال کے رمضان ثقافتی میلے کو دیکھنے کے لیے ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد ملکی اور غیر ملکی سیاح جدہ پہنچے۔ الوفی کا مزید کہنا ہے کہ اُن کی حکومت کی خواہش تھی کہ جدہ کے پرانے حصے میں زندگی کی گہما گہمی کو ایک بار پھر سے واپس لایا جائے اور جس فیسٹیول کو مقامی لوگوں نے پسِ پشت ڈال دیا تھا، اُس کو حکومت نے ایک مرتبہ پھر سجا دیا ہے۔ البلد کے تاریخی حصے کے نگران سمی نوار کا کہنا ہے کہ حکومت اِس حصے کے قدیمی شناخت قائم رکھنے کا اصولی فیصلہ کر چکی ہے۔ وزارتِ سیاحت اور خزانہ مقامی لوگوں کی مالی معاونت بھی کرے گی تا کہ فیسٹیول کی عربی ثقافتی سرگرمیوں کو مزید نکھار دیا جا سکے۔

جدہ کے رمضان فیسٹول میں رنگا رنگ سرگرمیوں میں سے ایک وہاں پر لگائے گئے کئی اسٹال اور ریستوران ہیں۔ اسی سے زائد اسٹال پر انواع و اقسام کی اشیاء فروخت کے لیے رکھی گئی ہیں۔ کئی اسٹالز روایتی مٹھائیوں اور خوش ذائقہ اشیاء کی ہیں۔ ایک اسٹال عربوں میں مشہور حجازی سویٹس کا ہے، اور اِس کے انتظام کار سمیر جستانیہ کا کہنا ہے کہ مٹھائیاں بنانا اور فروخت کرنا اُن کا خاندانی کاروبار ہے۔ سمیر کے مطابق اُن کا خاندان اِس پیشے سے گزشتہ ڈیڑھ سو برس سے منسلک ہے۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ عربی مٹھائیوں کو عرب دنیا میں سب سے پرانا کاروبار خیال کیا جاتا ہے۔

اسی میلے میں ایک اور اسٹال پر بھوک بڑھانے والی اشیا سجا کر رکھی گئی ہیں۔ ان میں مقامی طور پر تیار کردہ اچار اور عرب کھانوں میں استعمال ہونے والے مصالحہ جات بھی خریداروں کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ میلے میں خوبانی سے تیار کردہ ٹھنڈے شربت کے گھونٹ لیتے ہوئے ایک عرب شخص علی جزار کا کہنا ہے کہ اِس میلے میں کئی روایتی اشیا دستیاب ہیں جو بہت من کو بھاتی ہیں اور یہ میلہ مقامی لوگوں کی نگرانی میں سجایا جاتا ہے جو واقعی حیران کن ہے۔ میلے میں آئے ہوئے ایک اور عرب عثمان الرسینی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ساتھ لایا ہے تا کو انہیں دکھایا اور بتایا جا سکے کہ اُن کے اجداد کیسے زندگی بسر کرتے تھے۔