جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
شمالی کوریائی رہنما کے بقول ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اپنے اولین دورہ جنوبی کوریا کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔