جوں جوں وقت گذر رہا ہے میرے دل میں ماضی کے آمروں کی عزت بڑھتی جا رہی ہے ۔ انہوں نے اپنے اپنے دور کے آئین کے ساتھ جو بھی کھلواڑ کیا کھل کے اور ببانگ ِ دہل کیا۔
ایوب خان نے انیس سو چھپن کا آئین لپیٹ کر اچھا کیا کہ برا؟ یحیی خان نے باسٹھ کا آئین منسوخ کر کے اچھا کیا کہ برا ۔ ضیا الحق نے تہتر کے آئین کو منسوخ کرنے کے بجائے معطل کر کے عبوری آئینی حکم نامے ( پی سی او ) کے تحت دس برس سے زائد حکومت کی۔ یہ درست اقدام تھا یا غلط ؟ اس پر بحث کا دروازہ کھلا رہے گا۔ اسی طرح مشرف نے بھی آئین کو جزوی معطل کر کے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ ایجاد کر کے عبوری آئینی حکم کے تحت کاروبار چلانے کی کوشش کی اور اس بابت کوئی تردیدی یا معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا۔
ایوب خان کو سیاستدانوں سے نفرت تھی لہذا اس نے ان کی سیاست پر کئی برس کے لئے اپنے قانون ( ایبڈو ) کے تحت پابندی لگائے رکھی۔ مخالفین کو جیل میں ڈالا تو بلاجھجھک کہہ کے ڈالا۔ یحیٰی خان نے مارشل لا کے حکم ناموں کے زریعے بیوروکریسی میں من پسند چھانٹی کی سو کی۔ ضیا الحق نے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی تو اس کے لیے باقاعدہ مارشل لا آرڈر نکالا گیا۔ سیاسی مخالفین کو کوڑے لگائے تو سب کے سامنے لگائے۔ گرفتار کر کے جیلوں یا شاہی قلعے میں رکھا تو یہ کام بھی پوشیدہ رکھنے کے بجائے کھلم کھلا کیا۔ یہی وطیرہ بھٹو صاحب پر چلنے والے مقدمے کے بارے میں بھی اختیار کیا گیا۔ پرویز مشرف نے سینہ ٹھونک کے ججوں کو نظربند کیا۔
شائد آپ سوچ رہے ہوں کہ اس میں نئی بات کیا ہے۔ یہ واقعات تو بچے بچے کو معلوم ہیں۔ آخر میں کہنا کیا چاہ رہا ہوں ؟
میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ حکمران کو جو بھی اچھا برا کرنا ہے وہ کھل کے اپنے اقدامات کی زمہ داری قبول کرتے ہوئے کرے تو یہ بھی ایک قابلِ قدر اخلاقی وصف ہے ۔
مگر یہ عجیب دور آیا ہے جس کے بارے میں آپ اندازے ہی لگاتے رہیں کہ یہاں کون سا نظام ہے، جو چل تو رہا ہے مگر اس کی اونر شپ لینے کو کوئی تیار نہیں۔ بظاہر یہ پولیس اسٹیٹ بھی نہیں مگر پولیس اسٹیٹ والا ہر ہتھکنڈہ استعمال ہو رہا ہے ۔
آئین کو کتابی شکل میں تو برقرار رکھا گیا ہے مگر ورق در ورق اس آئین کی روح اور عزتِ نفس پارہ پارہ کی جا رہی ہے۔ یعنی آئین کی کوئی نہ کوئی شق روز سنگسار ہو رہی ہے۔ عدالتوں کو فیصلے دینے کی بظاہر پوری آزادی ہے مگر فریقِ ثانی ان فیصلوں پر سنجیدگی سے عمل کرنے کے بجائے ہر آئینی فیصلے کو کاغذ کا جہاز بنا کے ہوا میں اڑا رہا ہے۔
ادنیٰ سے اعلیٰ عدالت تک شہریوں کو قانونی ریلیف دینے کے لیے جو بھی احکامات جاری ہو رہے ہیں،ان کو پولیس اور ڈپٹی کمشنروں کے ہاتھوں بے توقیر کروایا جا رہا ہے۔ توہین عدالت کے قانون کی جتنی توہین گذشتہ ڈیڑھ برس میں ہوئی ہے، مارشل لاؤں سمیت سب ادوار کو ملا کے اتنی توہین نہیں دیکھی گئی۔ اب تو جج بھی سائل سے کہنے لگے ہیں کہ ہمارے پاس ریلیف کے لیے آنے کا کیا فائدہ؟ آپ 'ان' سے براہِ راست سمجھوتہ کیوں نہیں کر لیتے۔
پہلے ہم سنا کرتے تھے کہ قانون کی حکمرانی پر چلنے والی ریاست اور ایک غیر ریاستی زور آور میں یہ فرق ہوتا ہے کہ جو بھی پسندیدہ یا ناپسندیدہ برا بھلا قانونی فیصلہ آتا ہے۔ ریاست کم از کم نیم دلی سے ہی سہی دنیا دکھاوے کے لیے اس پر رسمی عمل کرنے کا تاثر ضرور دیتی ہے جبکہ غیر ریاستی زور آور یا نان اسٹیٹ ایکٹر بزعمِ خود ہی قانون اور قاضی ہوتا ہے اور وہ مروجہ قانون کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔اسی لیے انہیں راہِ راست پر رکھنے کے لئے جزا و سزا کا شکنجہ موجود ہوتا ہے ۔
مگر آج کے دن ریاست جس طرح اپنے عام اور خاص شہریوں سے پیش آ رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ تمیز مشکل ہوتی جا رہی ہے کہ اسٹیٹ ایکٹرز کو نان اسٹیٹ ایکٹرز سے کیسے الگ کر کے دیکھا جائے۔
عدالتی امتناع کے باوجود لوگ کھلم کھلا اٹھائے جا رہے ہیں۔ اجالے میں سب کے سامنے غائب ہو رہے ہیں، جو ہتھیار ڈال دیتا ہے اس پر سات خون معاف ہو جاتے ہیں، جو اکڑ جاتا ہے اسے بیسیوں مقدمات کی رسی سے تب تک باندھا جاتا ہے جب تک وہ ہاتھ کھڑا کر کے اچھا بچہ بننے کا اعلان نہ کر دے۔
مگر جو یہ سب کر رہے ہیں ان میں ماضی کے آمروں کے برعکس اتنی اخلاقی جرات بھی نہیں کہ سامنے آ کر کہہ سکیں کہ ہاں ہم ان اقدامات کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور تب تک کرتے رہیں گے، جب تک کے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو جاتے۔
اس وقت صورتحال یوں ہے کہ آئین ہے مگر عملاً اس کا بیشتر حصہ غیر اعلانیہ معطل ہے۔ حکومت ہے مگر وہ چابی کے بھالو کی طرح چل رہی ہے ۔عدلیہ فعال ہے مگر اس کے فیصلوں سے سوائے ردی میں اضافے کے کچھ نہیں ہو رہا۔
پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ پوری سیاسی کلاس اپنے ہاتھوں ہی ڈی کلاس کر دی گئی ہے اور اتنی بے توقیر ہو گئی ہے کہ عام آدمی کے سامنے اپنا دفاع تک نہیں کر پا رہی۔
ہو سکتا ہے کہ جن کے ہاتھ میں اس وقت مملکت کی ڈوریاں ہیں انہیں سیاست کاری کی بنجر زمین دیکھ کر لگ رہا ہو کہ ” گلیاں ہو جان سنجیاں تے وچ مرزا یار پھرے۔‘‘
مگر وہ بے خبر ہیں اس گھڑی سے کہ جب ان کے ہاتھ سے بھی سب کچھ نکلنے لگے گا تو زمہ داری کی اوجھڑی اپنے گلے سے اتار کے کسی اور کو منڈھنے کے لیے کوئی گلا نہیں ملے گا۔
کسی بھی سماج کے لیے آخری سانحہ ہوتا ہے کہ اس کی نظروں میں پوری پولٹیکل کلاس ہی ڈس کریڈٹ ہو جائے یا کر دی جائے۔ایسے سماج کی تنہائی کا حال ناقابلِ بیان ہے ۔
اس زمین کو جس محنت سے اصولی سیاست کے لیے بھی بنجر بنایا جا رہا ہے، اس کے بعد اگلا مرحلہ یہ ہے کہ یہاں جھاڑیاں اگنے لگیں اور پھر ان جھاڑیوں میں طرح طرح کے زہریلے اور خطرناک جانور بسیرا کرنے لگیں اور وہ پوری طرح قانونِ جبلت کے تحت اس سرزمین پر حکمرانی کریں۔ طوائف الملوکی کا منطقی انجام یہی ہے
اگر تو آپ یہی دیکھنا چاہتے ہیں تو اچھی خبر یہ ہے کہ آپ اس نوبت تک تقریباً پہنچ چکے ہیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔