1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس کے ساحل پر تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے متعدد ہلاک

7 اگست 2023

تیونس کے ایک جزیرے کے پاس تارکین وطن سے بھری ایک کشتی ڈوبنے سے چار افراد ہلاک اور تقریباً 51 لاپتہ ہیں۔ اس برس اب تک تیونس کے ساحل پر ڈوب کر ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی نو سو سے زائد لاشیں نکالی جا چکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4UqB9
تیونس کے ساحل پر تارکین وطن کی ایک کشتی
اس برس اب تک تیونس کے ساحل پر ڈوب کر ہلاک ہونے والے تارکین وطن کی نو سو سے زائد لاشیں نکالی جا چکی ہیںتصویر: Hasan Mrad/ZUMA/picture alliance

تیونس میں ایک عدالتی اہلکار نے اتوار کے روز خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ملک کے جزیرے کرکنہ کے قریب تارکین وطن کا ایک جہاز ڈوبنے سے کم از کم چار تارکین وطن ہلاک اور 51 لاپتہ ہو گئے۔ اہلکار کے مطابق اس کشتی میں سوار تمام تارکین وطن کا تعلق افریقہ کے سب صحارا سے تھا۔

اس سال تیونس کے ساحل پر 900 تارکین وطن ڈوب کر ہلاک چکے ہیں

رواں برس شمالی افریقی ملک تیونس کو نقل مکانی کی ریکارڈ لہر کا سامنا رہا ہے، جہاں اب تک سب صحارا افریقہ سے اطالوی ساحلوں کی طرف جانے والے تارکین وطن کی کشتیوں کے ڈوبنے جیسے درجنوں تباہ کن واقعات ہو چکے ہیں۔

لیبیا: انسانی اسمگلروں کی قید سے سینکڑوں پاکستانی بازیاب

رواں برس اب تک نو سو سے زائد ہلاک

ایک ہفتے قبل ہی تیونس کے وزیر داخلہ کامل فقی نے بتایا تھا کہ رواں برس جولائی کے اواخر تک تیونس کے ساحل پر 900 سے زیادہ تارکین وطن ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس شمال افریقی ملک کو تارکین وطن کی بڑی تعداد کی آمد کا سامنا رہا ہے، جو غربت سے بچنے کے لیے یہاں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مزدوروں کی پولینڈ اور ہنگری کی طرف نقل مکانی عروج پر

تیونس کے نیشنل گارڈ کے ترجمان حسیم الدین جبالی کا کہنا تھا کہ اس برس اب تک متعدد کارروائیوں میں 34 ہزار سے زائد افراد کو بچایا بھی گیا ہے۔

یونان میں ڈوبنے والے چار پاکستانیوں کی میتیں وطن پہنچ گئیں

کہا جاتا ہے کہ تارکین وطن کو لے جانے والی ایسی بیشتر کشتیاں تیونس کے جنوبی شہر اسفیکس سے روانہ ہوتی ہیں اور اس کا مقصد کسی بھی طرح یورپ تک پہنچنا ہوتا ہے۔

یورپ کی طرف سفر: بحیرہ روم میں درجنوں تارکین وطن بچا لیے گئے

اس سے قبل اطالوی حکومت نے کہا تھا کہ اس برس 80,000 سے زیادہ ایسے پناہ کے متلاشی تارکین وطن بحیرہ روم کو عبور کر کے اس کے ساحل پر پہنچے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا تعلق تیونس اور لیبیا سے ہے۔

تیونس میں مقیم پناہ گزیں
تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی بہتر زندگی کی امید میں بحیرہ روم کے ذریعے اکثر خطرناک کشتیوں میں جان لیوا سمندری سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیںتصویر: Hasan Mirad/Zumapress/picture alliance

تیونس میں صورتحال کیا ہے؟

تقریبا ًسوا کروڑ کی آبادی والے ملک تیونس میں تارکین وطن کی بڑھتی تعداد کی وجہ سے نسلی کشیدگی کے ساتھ ہی کئی بار تشدد بھی بھڑکا ہے، کیونکہ اب یہ مہاجرین کے راستوں کا ایک اہم مرکز بنتا جا رہا ہے۔

یہ شمال افریقی ملک پہلے سے ہی ایک گہرے معاشی بحران سے نبرد آزما ہے، جہاں مہنگائی اور ریکارڈ بے روزگاری تیونس کے باشندوں کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔

تارکین وطن اور پناہ کے متلاشی بہتر زندگی کی امید میں بحیرہ روم کے ذریعے اکثر خطرناک کشتیوں میں جان لیوا سمندری سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اقوام متحدہ نے ایسے تارکین وطن کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا ہے، جو ملک کے الگ تھلگ علاقوں میں منتقل ہونے کے بعد سے تیونس میں پھنس گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی تنظیم انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (آئی او ایم) اور پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) نے ایک مشترکہ بیان میں کہا، ''پھنسے ہوئے لوگوں میں خواتین (بشمول ان کے جو حاملہ ہیں) اور بچے بھی شامل ہیں۔''

آئی او ایم کے مطابق تارکین وطن کے لیے وسطی بحیرہ روم دنیا کا سب سے مہلک راستہ بن چکا ہے، جو سن 2014 سے اب تک 20,000 سے بھی زیادہ جانیں لے چکا ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

’پاکستان کے حالات ایسے ہیں کہ رسک لینا بنتا ہے‘