تیونس کے ’انقلاب‘ میں الجزیرہ کا کردار
22 جنوری 2011تیونس کے بپھرے عوام نے زین العابدین بن علی کو ایسا پچھاڑا کہ انہیں اقتدار چھوڑ کر ملک سے ہی فرار ہونا پڑا۔ وہاں اب اسی تناظر میں انتخابات منعقد کیے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم محمد غنوشی نے کہا ہے کہ وہ جس قدر جلدی ممکن ہوا، وزارت عظمیٰ کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ ان کی عبوری حکومت نے چھ ماہ میں انتخابات کرنے کا اعلان کیا ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔
قطر سے نشر ہونے والے الجزیرہ ٹیلی ویژن چینل کے رپورٹروں کا داخلہ بعض عرب ملکوں میں پہلے ہی ممنوع ہے، جن میں زین العابدین کے دورِ حکومت تک تیونس بھی شامل تھا۔ تاہم ان کی حکومت کا تختہ الٹتے ہی اس ٹی وی کی ٹیمیں وہاں پہنچ گئیں۔
تیونس میں جو مظاہرے زین العابدین کی برطرفی کا باعث بنے، ان کی وجہ ایک نوجوان پھل فروش کی خودسوزی تھی، جسے الجزیرہ نے ہی نشر کیا تھا۔ ان فسادات کی کوریج میں اس چینل نے 60 فیصد فوٹیج موبائل فون کیمروں کے ذریعے بنائی گئی ویڈیوز سے حاصل کی، اور یوں ان فسادات کو تیونس کی سڑکوں سے عرب دنیا کے تقریباﹰ ہر شہری کے ڈرائنگ روم میں پہنچا دیا۔
عرب دُنیا میں بعض حلقے الجزیرہ کے اس کردار پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ تاہم بیشتر لوگوں نے اس کا خیرمقدم بھی کیا ہے۔
اردن میں اپوزیشن کی ایک کارکن مائسارہ مالاس کہتی ہیں، ’الجزیرہ میڈیا بریگیڈ کی مانند ہے۔ اس نے واقعات (تیونس کے) کو جس طرح رپورٹ کیا، اس سے انقلاب کے لیے فیس بُک یا اس طرز کے کسی بھی ذریعے سے زیادہ مدد ملی ہے۔‘
بیروت میں موجود تجزیہ کار رامی خوری لکھتے ہیں، ’اس سے سیاسی قوت کے طور پر الجزیزہ کی پختگی ظاہر ہوتی ہے، جو سیاست کا رُخ موڑنے میں ایک کردار ادا کر سکتی ہے۔‘
الجزیرہ ویب سائٹ کے سابق ایڈیٹر Firas Al-Atraqchi کہتے ہیں، ’الجزیرہ کی طاقت اس بات میں رہی کہ اس نے تیونس کی خبر کو اپنا لیا۔‘
اردن میں ایک بلاگ چلانے والے زید ابو کا کہنا ہے، ’الجزیرہ تیونس کی سڑکوں پر موجود مظاہرین میں سے ایک بن چکا تھا اور اس نے لوگوں کو واقعات سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ رکھا۔’
زین العابدین 14جنوری کو سعودی عرب فرار ہو گئے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ ڈیڑھ ٹن سونا بھی لے گئے ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عاطف توقیر