تیونس میں زین العابدین کی پارٹی کی سرگرمیوں پر پابندی
7 فروری 2011تیونس کے وزیرداخلہ فرحت راجہی نے ملک میں پر تشدد مظاہروں کے واقعات کے بعد سابق صدر کی جماعت آرسی ڈی کے اراکین کے اکٹھے ہونے اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگا دی ہے۔ قبل ازیں بن علی کی حکومت کے ماندہ عہدے داروں کے خلاف مظاہرے کیے گئے۔
وزیر داخلہ نے سرکاری ٹیلی وژن پر آر سی ڈی کے ملک بھر میں تمام دفاتر بند کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملکی مفاد اور سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر یہ اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ بن علی کے ملک چھوڑنے کے تین ہفتے بعد بھی مظاہرے جاری ہیں۔
اتوار کو تیونس کے جنوبی شہر قبیلی میں پولیس اور مظاہرین کے دوران جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ مظاہرین شہر میں مقامی گورنر کی تقرری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین ان تمام افراد کے خلاف احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، جو سابق صدر بن علی کی حکومت میں شامل رہے ہیں۔
اسی طرح ہفتے کو شمال مغربی شہر کیف میں مظاہرین کی جانب سے ایک پولیس چوکی کو نذرآتش کرنے کے بعد وہاں فوج تعینات کر دی گئی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس کی جانب سے اس وقت فائرنگ کر دی گئی جب کم ازکم ایک ہزار مظاہرین مقامی پولیس کے سربراہ Khaled Ghazouani کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ وہ اپنی طاقت کا بے جا استعمال کرتے ہیں، اس لیے انہیں اس عہدے سے برطرف کر دیا جائے۔
صورتحال میں تناؤ اس وقت پیدا ہوا جب خالد نے ایک خاتون کو تھپڑ مارا۔ تیونس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی TAP کے مطابق اس واقعے کے بعد مظاہرین نے پولیس اسٹیشن کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد پولیس نے مظاہرین پر فائر کھول دیا۔ فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جبکہ تین شدید زخمی ہوئے، جن میں سے دو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہفتہ کی شب چل بسے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اب علاقے میں صورتحال قابو میں آ گئی ہے اور پولیس افسر خالد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل