1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستافریقہ

تیونس: صدر کی عدلیہ پر سخت گرفت کے بعد احتجاجی مظاہرے

14 فروری 2022

تیونس کے صدر نے اپنے ایک حکم نامے سے خود ہی بہت سے عدالتی اختیارات حاصل کر لیے۔ وہ اب اپنی مرضی سے ججوں کی تقرری اور برطرفی کر سکتے ہیں۔ دارالحکومت تیونس میں اس کے خلاف ہزاروں شہریوں نے مظاہرہ کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/46yKk
Tunesien Proteste
تصویر: Hassene Dridi/AP Photo/picture alliance

تیونس میں اتوار کے روز علی الصبح شائع ہونے والے ایک متنازعہ صدارتی حکم نامے کے بعد ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔ ملک کے صدر قیس سعید نے ایک نیا جوڈیشل واچ ڈاگ قائم کر کے عدلیہ سے متعلق تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ اس کے تحت انہیں ایسے تمام اختیارات حاصل ہو گئے ہیں کہ جس سے وہ بذات خود ججوں کی برطرفی، ان کی ترقی اور تقرری کے مجاز ہیں۔

گزشتہ برس ملکی پارلیمان تحلیل کرنے کے بعد سے ہی صدر قیس مختلف اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے ساتھ ہی اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور اب انہوں نے عدالتی اختیارات بھی حاصل کر لیے ہیں۔  

مظاہرین کا عدلیہ کی آزادی کا مطالبہ

صدر کے تازہ حکمنامے کے سامنے آنے کے بعد ہی دارالحکومت تیونس میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور اس کے خلاف مظاہرہ کیا۔ بہت سے مظاہرین قومی پرچم لہرانے کے ساتھ ہی نعرے بازی کر رہے تھے۔ مظاہرین نے بعض ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا، ''عدلیہ کو ہاتھ مت لگائیں!'' جبکہ ایک اور بینر پر لکھا تھا، ''ہماری جمہوریت کو بچاؤ!''

صدر نے عدلیہ کی سپریم کونسل کو برخاست کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کونسل کے سربراہ یوسف بو زخار نے اس حکم نامے کو، ''غیر آئینی قرار دیا جو عدلیہ کی آزادی کی ضمانتوں کو ختم کرتا ہے۔''

جمعرات کو قیس سعید نے کہا تھا کہ وہ ایسا حکم نامہ جاری کرنے جا رہے ہیں جس سے عدلیہ کی اعلیٰ کونسل مکمل طور پر تحلیل ہو جائے گی۔ یہ ججوں کی نگرانی کرنے والا ایک اہم قانونی ادارہ ہے اور صدر سے بالکل الگ آزادانہ طور پر کام کرنے والے باقی بچے آخری اداروں میں سے ایک تھا۔ 

Tunisia, Tunis: Kais Saied elected president during the second round of the presidential elections (2019/10/13) Tunisia,
تصویر: Monasse Th/Andia/imago images

ان کے اس اعلان کے بعد ججوں اور وکلاء نے پیلس آف جسٹس کے باہر احتجاج کیا۔ ادھر ایک نئے حکم نامے میں عدلیہ کے ارکان کو احتجاجی کارروائی میں حصہ لینے سے بھی روک دیا گیا ہے۔

یہ حکمنامہ جمہوری عمل ختم کر سکتا ہے

صدر کے حکم کے مطابق  اب 21 ارکان پر مشتمل ایک ''عارضی سپریم جوڈیشل کونسل'' قائم کی جائے گی۔ اس میں نو اراکین کی تقرری خود صدر کے ذریعے ہو گی اور ان سب کو ''عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کے لیے'' حلف بھی اٹھانا ہو گا۔

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کے ریجنل ڈائریکٹر سعید بن عربیہ نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اس حکم نامے کی مدد سے، ''عدلیہ کو ایگزیکٹو کے ماتحت کام کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔''

بن عربیہ کا کہنا ہے، ''اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے، تو یہ تیونس میں عدالتی آزادی اور اختیارات کی علیحدگی کے نظام کو پوری طرح سے ختم کر دے گا، اور اس کے ساتھ ملک میں جمہوری عمل کا تجربہ بھی ختم ہو جائے گا۔''(

گزشتہ برس جولائی میں تیونس اس وقت ایک آئینی بحران میں پھنس گیا تھا جب صدر قیس سعید نے ملک کی پارلیمنٹ کو معطل کر دیا۔ انہوں نے موجودہ وزیر اعظم کو برطرف کرتے ہوئے ایگزیکٹو کے تمام اختیارات خود ہی حاصل کر لیے تھے۔اس وقت صدر نے کہا تھا کہ ان کے، ''غیر معمولی اقدامات'' کا مقصد تیونس کو تباہی سے بچانا ہے۔

صدر کے حامیوں نے تیونس کے پورے سیاسی نظام کو بدعنوان قرار دیتے ہوئے ان کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ ملک کو آمرانہ حکمرانی کی طرف لے جا رہے ہیں۔

 ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں