1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تین ہزار بچے گردے کی پیوند کاری کے منتظر

Kishwar Mustafa19 نومبر 2012

پاکستان میں سالانہ 3 ہزار بچے گردوں کے امراض میں مبتلا ہوکر گردے کی پیوند کاری یا ٹرانسپلانٹیشن کے منتظر رہتے ہیں۔ ان کا بر وقت علاج ہبت ضروری ہے۔

https://p.dw.com/p/16lUg
تصویر: picture-alliance/dpa

عالمی شہرت یافتہ ماہر امراض گردہ ڈاکٹرادیب رضوی کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں گردوں کے امراض میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ادیب رضوی کا کہنا ہے کہ بعد ازمرگ اعضاء عطیہ کرنے کا قانون بننے کے بعد عطیہ کرنے کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور بچوں کو بھی اسکا فائدہ ہورہا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی نے ان خیالات کا اظہار ڈوئچے ویلے کو دیئے گئے خصوصی انڑ ویو میں کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورو لوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن siut کے قیام کے بعد اس مرض کی تشخیص اب آسان ہو گئی ہے انکا کہنا ہے کہ گردوں کے سکٹرنے یا کینسر جیسے مرض کی تشخیص اب آسان ہوگئی ہے ماضی میں ان امراض کی آگاہی میں خاصہ وقت درکار ہوتا تھا مگر اب صرف 3 سیکنڈ میں امراض کی تشخیص ہوجاتی ہے اور علاج کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کا کہنا ہے کہ بڑوں کی نسبت بچوں میں گردوں کے امراض کا علاج جیسے ڈائیلاسسز اور ٹرانسپلا نٹیشن پیچیدہ اور مشکل کام ہے کیونکہ بچوں کو علاج سے قبل ہر قسم کے انفیکشن سے بچانا پڑتا ہے اور ان کی خوراک کو کنٹرول کرنا پڑتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ادیب رضوی نے کہا کہ بچوں اور بڑوں میں گردوں کے امراض پھیلنے کی وجہ غیر صحت مند ماحول میں زندگی گزارنا ،غیر معیاری خوراک اور پینے کے لیے صاف پانی کی عدم دستیابی ہے۔

Organhandel International Dossierbild 3
غربت کے مارے افراد اپنے گردے بیچنے پر مجبورتصویر: picture-alliance/dpa

وہ کہتے ہیں کہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں میں غربت ، غیر متوازن خوراک اور پینے کے لیے آلودہ پانی کی فراہمی کی وجہ سے ان علاقوں میں گردوں کا فیل ہوکر ڈائیلاسسز پر جانا معمول بن گیا ہے۔ ڈاکٹر ادیب رضوی کا کہنا ہے کہ بعد از مرگ اعضاءکی منتقلی کا قانون بننے کے بعد اعضاءعطیہ کرنے کے رجحان کو فروغ دینا نہایت ضروری ہے۔ پاکستان میں ہرسال 50 ہزارافراد انسانی اعضاء مثال کے طور پر دل ، گردہ، پھپڑوں اور جگر کے فیل ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ SIUT کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق گردے فیل ہونے کی وجہ سے ہر سال 15 ہزار افراد جبکہ جگر کے امراض میں مبتلا 10 ہزار مریض موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ گردے کے علاج میں سال دو سال بعد ڈائیلیسسز کے بعد ٹرانسپلانٹیشن کی ضرورت پیش آتی ہے جسکے لیے صرف ماں، باپ، سگے بہن بھائی یا قریبی عزیزو اقارب کے اعضاء کو لیا جاتا ہے اگر کسی مریض کے قریبی عزیز کا گردہ دستیاب نہ ہو تو پھر ڈونر کا انتظام کیا جاتا ہے۔


17 سالہ کشمالہ ان خوش نصیبوں میں شامل ہے جو موت کے منہ سے واپس آئی ہے یہ لڑکی 9 سال کی تھی جب ڈاکٹروں نے تشخیص کیا کہ اسکے گردوں میں انفیکشن ہے ابتدائی تحقیق کے بعد ڈاکٹروں نے ڈائیلیسسز کا مشورہ دیا لیکن اسکی حالت نہ سمبھل سکی تو ڈاکٹروں نے ٹرانسپلانٹ کروانے کا مشورہ دیا۔ مگر بد قسمتی سے اسکے والد شوگر اور والدہ یرقان میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گردہ عطیہ نہیں کر سکتے تھے مگر پھر siut نے بعد از مرگ ایک شخص کی طرف سے عطیہ کردہ گردہ لگا کر اس لڑکی کو زندگی کی آس دکھائی ۔ اب یہ لڑکی صحت مند زندگی گزار رہی ہے ۔ کشمالہ جیسی کئی بچیاں اور بچے اب بھی گردوں کے عطیے کے منتظر ہیں۔

Mensch an einem Dialysegerät
ڈائیلیسز کا عمل بھی کافی پیچیدہ ہوتا ہےتصویر: AP


کراچی میں قائم سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورو لوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن siut میں روزانہ سینکڑوں مریض ڈائیلیسز کروانے آتے ہیں جبکہ 10سے 12 ٹرانسپلانٹ کے آپریشن ہر ہفتے کئے جاتے ہیں اور پھر گردہ عطیہ کرنے والے ڈونرز اور مریض دونوں کی ایک عرصہ تک طبی نگہداشت اور ادویات کی فراہمی suit کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ ادارہ پورے ملک میں گردے کے امراض میں مبتلا لوگوں کے لیے امید کی کرن سے کم نہیں۔

رپورٹ: رفعت سعید کراچی

ادارت: کشور مصطفیٰ