1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کروڑوں بچے سالانہ بنیادوں پر آن لائن جنسی استحصال کا نشانہ

27 مئی 2024

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے محققین کی ایک تازہ مطالعاتی رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں تین سو ملین سے زائد بچے آن لائن جنسی استحصال کا نشانہ بن رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4gKba
لنک کاپی کریں
Symbolbild Kinderpornografie
تصویر: localpic/imago images

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے محققین کی جانب سے پیر ستائیس مئی کے روز شائع کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ بارہ ماہ کے دوران دنیا بھر میں بغیر مرضی کے لی گئی اور جنسی نوعیت کی تین سو ملین سے زائد تصاویر کے آن لائن لین دین یا شیئر کرنے کے واقعات عمل میں آئے۔

بچوں کے خلاف جنسی جرائم: سابق آسٹریلین بشپ پر فرد جرم عائد

’تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات ناقابل قبول‘

یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے چائلد لائٹ گلوبل چائلڈ سیفٹی انسٹیٹیوٹ کی نگرانی میں مکمل کی گئی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ مجموعی طور پر عالمی سطح پر آن لائن اس انداز کی تصاویر یا جنسی نوعیت کے مواد پر مبنی استحصال سے جڑے واقعات پیش آئے۔

اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ قریب اتنے ہی بچوں کو ہر سال بالغوں اور دیگر نوجوانوں کی جانب سے بغیر رضامندی سیکسٹنگ اور جنسی حرکات کے لیے بھی اکسایا جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ جرائم نام نہاد 'سیکسٹورشن‘ جہاں حملہ آور متاثرہ افراد کو انکی نجی تصاویر کے ذریعے بلیک میل کرتے اور پیسے اینٹھتے ہیں، سے لے کر اے آئی کے ذریعے ڈیپ فیک ویڈیوز اور تصاویر بنا کر کیے جاتے ہیں اور ان میں بنیادی جرم جنسی استحصال ہی ہوتا ہے۔

Symbolbild Smartphone & Apps
اسکیمرز بچوں کو برہنہ تصاویر کے ذریعے انہیں بلیک میل کرتے ہیںتصویر: Yui Mok/empics/picture alliance

ماہرین کے مطابق گو کہ یہ مسئلہ عالمی ہے، تاہم امریکہ میں خاص طور پر ہر نو میں سے ایک شخص نے اعتراف کیا کہ اس نے آن لائن کسی نہ کسی سطح پر کسی بچے کو ستایا۔

چائلڈ لائٹ انسٹیٹیوٹ کے چیف ایگزیکٹو پال اسٹینفیلڈ کے مطابق، ''بچوں سے متعلق جنسی استحصالی مواد اتنا زیادہ ہے کہ واچ ڈاگ تنظیموں اور پولیس اداروں کو ایسی کوئی نہ کوئی فائل ہر سیکنڈ مل رہی ہے۔‘‘

ان کا مزید کہا تھا، ''یہ مسئلہ ایک عالمی وبا کی شکل اختیارکر چکا ہے، جو ایک طویل عرصے سے چھپا ہوا تھا۔ یہ ہر ملک میں ہے اور مسلسل پھیل رہا ہے اور اس کے لیے خلاف ایک عالمی ردعمل درکار ہے۔‘‘

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ برطانوی پولیس نے مغربی افریقہ اور جنوب مشرقی افریقہ میں ایسے مجرمانہ گروہوں سے خبردار کیا تھا، جو برطانوی بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہیں۔

تیونس میں سیکس ایجوکیشن، ایک ممنوع موضوع

03:12

برطانوی پولیس کے مطابق عموماﹰ ٹین ایجر لڑکوں کے ساتھ دنیا بھر میں اس انداز کے جنسی استحصال کی سطح کہیں زیادہ ہے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے حال ہی میں ملک بھر کے اساتذہ سے کہا تھا کہ وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ ایسے کسی آن لائن حملے سے متعلق ہوشیار رہیں۔

ماہرین کے مطابق سکیمرز خود کو نوجوان ظاہر کر کے سوشل میڈیا کے ذریعے نابالغوں کے ساتھ بات چیت شروع کرتے ہیں اور پھر ان سے اینکرپٹڈ پیغامات والی ایپس کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے انہیں اپنی برہنہ تصاویر شیئر کرنے پر اکساتے ہیں۔ نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق ایسے گروہ عموماﹰ اپنی توجہ جنسی افعال کے بجائے اپنے شکار سے زیادہ سے زیادہ پیسے اینٹھنے پر مرکوز رکھتے ہیں۔

ع ت / م م (اے ایف پی)