1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخ

تیس برس قبل چانسلر کوہل کا ڈریسڈن کا دورہ کیوں اہم تھا؟

19 دسمبر 2019

دیوار برلن کے انہدام کے چھ ہفتوں بعد اُس وقت کے جرمن چانسلر ہلموٹ کوہل نے مشرقی شہر ڈریسڈن کا دورہ کیا تھا۔ آج تیس سال بعد اُس دورے کی اہمیت اور اُس کے مضمرات پر ایک نظر!

https://p.dw.com/p/3V5dr
Dresden | Bundeskanzler Helmut Kohl mit Ministerpraesident Hans Modrow
تصویر: Imago Images/photothek/T. Imo

انیس دسمبر 1989ء کو اُس وقت کے جرمن چانسلر ہلموٹ کوہل اپنے ایک وفد کے ساتھ جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک جی ڈی آر کے ایک اہم اور تاریخی شہر ڈریسڈن پہنچے تھے۔ جرمن چانسلر کے اس دورے کا بظاہر مقصد جی ڈی آر کے سربراہ ہانس موڈرو سے دونوں جرمن ریاستوں فیڈرل ریپبلک آف جرمنی اور جرمن ڈیموکریٹک ریپبلک  کے مستقبل کے بارے میں بات چیت کرنا تھا تاہم اس دورے کے دوران انہوں نے ڈریسڈن کے مشہور زمانہ چرچ 'فراؤن کِرشے‘‘ میں ایک تقریر کی تھی۔ اس تقریر کا متن غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔

ہلموٹ کوہل کے ڈریسڈن دورے کی اہمیت

وفاقی جمہوریہ جرمنی کے سابق چانسلر ہلموٹ کوہل کا 1989ء کا شہر ڈریسڈن کا دورہ کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا۔ موجودہ جرمنی کے صوبے سیکسنی کے دارالحکومت ڈریسڈن شہر کی تاریخی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں برطانیہ / امریکی اتحادی فوج کی بمباری میں یہ شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو گیا تھا اور انگنت بموں کے برسنے کے سبب 22 سے 25 ہزار کے لگ بھگ انسان ہلاک ہوئے تھے۔ بعض ذرائع اس سے بھی زیادہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں۔ شہر ڈریسڈن میں قائم کلیسا '' فراؤن کِرشے‘‘ نہ صرف طرز تعمیر کا ایک حسین شاہکار رہا ہے بلکہ اس کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ پہلے اس مقام پر چھوٹے بڑے مختلف چرچ بنے ہوئے تھے۔ انیسویں صدی میں اسے ایک بڑے کلیسا کے طور پر ایک انوکھی گنبد نما چھت کے ساتھ تعمیری فن کے ایک منفرد شاہکار کے طور پر تعمیر کیا گیا۔ اس گنبد کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پورے ڈریسڈن شہر کی عکاسی کی گئی ہے۔ اس کے معمار باروک طرز تعمیر کے جرمن ماہر تعمیرات گیؤرگ بیئر تھے۔

Deutschland Dresdner Frauenkirche
ڈریسڈن کے مشہور زمانہ چرچ کی گنبد نما چھت کا اندرونی منظرتصویر: picture alliance/dpa/M. Hiekel

1989ء میں جس وقت چانسلر ہلموٹ کوہل نے کلیسا '' فراؤن کرشے‘‘ کے مقام پر کھڑے ہوکر  خطاب کیا  اُس وقت 1945ء میں دوسری عالمی جنگ کی بربادیوں کی ایک علامت سمجھے جانے والے اس چرچ کے مقام پر کھنڈرات  کے سوا کچھ نہ تھا۔  چانسلر کوہل نے پھول رکھتے ہوئے تعزیت کا اظہار کیا۔ اُس وقت وہاں موجود جرمن باشندے ہاتھوں میں سیاہ، سرخ اور سنہرے رنگ کا پرچم اٹھائے اتحاد، اتحاد اور ہلموٹ کوہل، ہلموٹ کوہل کے نعرے لگا رہے تھے۔

کوہل کے دورے کا مقصد

ڈریسڈن کے دورے سے چند ہفتے قبل ہلموٹ کوہل جرمن اتحاد کے منصوبے کے 10 نکات پیش کر چُکے تھے جس کی اطلاع انہوں نے دوسری عالمی جنگ کے چاروں فاتح قوتوں امریکا، فرانس، روس اور سویت یونین میں سے محض ایک یعنی امریکا کے صدر کو دی تھیں۔ اُس وقت بڑی عالمی طاقتوں سمیت یورپ خاص طور سے منقسم جرمن عوام میں، اس بارے میں گہری تشویش پائی جاتی تھی کہ دیوار برلن کے انہدام کے بعد تباہ حال جرمنی کا کیا بنے گا؟

Rammstein Konzert Tour 2019
دوسری عالمی جنگ میں شہر ڈریسڈن اتحادی افواج کی بمباری سے تباہ ہو گیا تھا۔تصویر: picture-alliance/dpa/R. Michael

اگرچہ دیوار برلن کا انہدام  تازہ تازہ عمل میں آ چُکا تھا، تب بھی 19 دسمبر 1989ء کو جرمن چانسلر ہلموٹ کوہل کے ڈریسڈن کے دورے سے قبل اس شہر میں کروائے جانے والے ایک عوامی سروے کے نتائج سے پتا چلا کہ عوام کی ایک بڑی تعداد جرمن اتحاد کی مخالف تھی، تب بھی جرمن اتحاد ممکن ہوا اور ہلموٹ کوہل کی بیوہ مائیکے کوہل رشٹر کے بقول کوہل کا ڈریسڈن کا دورہ ،'' جذباتی طور پر چانسلر کوہل کی زندگی کا سب سے بڑا دن تھا‘‘۔

وفاقی جمہوریہ جرمنی کے عوام کے لیے مجموعی طور پر ہلموٹ کوہل کے ڈریسڈن کا دورہ اور جرمن اتحاد کا تاریخی واقعہ جہاں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے، وہاں آج 30 سال بعد بھی ایک امر پر سوالیہ نشان لگا نظر آ رہا ہے، ''منقسم جرمنی متحد تو ہوگیا لیکن کیا جرمنی کے مشرقی حصے کے عوام اپنی قدر و منزلت سے مطمئن ہیں؟‘‘۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں