1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تہور رانا کو چودہ برس کی سزائے قید

18 جنوری 2013

امریکا کے ایک وفاقی جج نے پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تہور رانا کو کالعدم پاکستانی تنظیم لشکر طیبہ کی معاونت کرنے کے جرم میں چودہ برس کی سزائے قید سنا دی ہے۔

https://p.dw.com/p/17Mee
تصویر: picture alliance/dpa

امریکا کی ایک عدالت میں تہور رانا پر الزام ثابت ہوا تھا کہ وہ لشکر طیبہ کو انتظامی مدد فراہم کرنے کا مرتکب ہوا تھا۔ یہ وہ تنظیم ہے، جس پر الزام ہے کہ وہ 2008ء میں ممبئی حملوں میں ملوث تھی۔ ان حملوں میں 166 افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے تھے۔ یہ امر اہم ہے کہ تہور رانا پر ممبئی حملوں میں براہ راست ملوث ہونے کے الزامات ثابت نہیں ہو سکے تھے۔

پاکستان فوج کے سابق ڈاکٹر باون سالہ تہور حسین رانا پر 2011ء میں یہ الزام بھی ثابت ہوا تھا کہ وہ ڈنمارک کے اخبار Jyllands-Posten پر حملے کی سازش میں بھی ملوث تھا۔ یہ ایک ایسی سازش تھی، جس پر کبھی عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔ اسی اخبار نے پیغمبر اسلام کے متنازعہ خاکے شائع کیے تھے، جن پر مسلم دنیا میں ایک احتجاج دیکھنے میں آیا تھا۔

جمعرات کے دن وفاقی جج ہیری لینن ویبر نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انہیں ایسے بہت سے خطوط موصول ہوئے ہیں، جن میں تہور رانا کے دوستوں، رشتہ داروں اور دیگر افراد نے کہا ہے کہ وہ ’ایک ذہین شخص تھا، جو نیک نیتی سے زیادہ سے زیادہ لوگوں کی مدد کرنا چاہتا تھا‘۔ تاہم لینن ویبر نے کہا،’’ جوبات نہ سمجھ میں آنے والی ہے، وہ یہ ہے کہ ایسا شخص ایسی گھناؤنی سازش میں کیسے ملوث ہوا۔‘‘

Tahawwur Hussain Rana Prozess in Chicago USA
تہور راناتصویر: picture-alliance/dpa

عدالتی کارروائی کے دوران رانا کے بچپن کے دوست ڈیوڈ ہیڈلی نے ممبئی حملوں کے لیے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کو بھی ملوث قرار دیا تھا۔ ممبئی حملوں کی منصوبہ سازی کے الزامات کا سامنے کرنے والے ہیڈلی نے اقبال جرم بھی کیا تھا۔ اسے چوبیس جنوری کو سزا سنائی جائے گی۔

وکیل استغاثہ ڈینیل کولِن نے بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ تہور رانا کو سخت سزا دینا چاہیے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ لشکر طیبہ کن عناصر کی نمائندگی کرتی ہے۔ امریکا نے اس تنظیم کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ کولِن نے مزید کہا کہ رانا کو معلوم تھا کہ اس تنظیم کے ممبران کے ہاتھ خون سے رنگے ہیں اور اس نے پھر بھی ان کی مدد کی۔

وکیل صفائی پیٹرک بلیگن نے اپنے مؤکل کے لیے نرم سزا کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ معاشرے کے لیے خطرہ نہیں ہے اور جیل میں اسے دل کا دورہ پڑ چکا ہے اور اس کی صحت بھی خراب ہے، ’’وہ ایک اچھا شخص ہے اور ایک بری صورتحال میں پھنس گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ایسا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ وہ دوبارہ ایسا کرے گا۔

عدالتی کارروائی کے دوران تہور رانا خاموش رہا۔ اس کے وکلاء نے کہا کہ وہ اپنے مؤکل کو مجرم قرار دیے جانے پر اپیل کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں اور اس بات پر بھی غور کریں گے کہ آیا سزا کے خلاف بھی اپیل کی جائے یا نہیں۔

(ab /at (Reuters