1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھوک میں پکوڑے تلنے کا فن

8 مئی 2023

کسی کو یاد ہے کہ گذشتہ برس آٹھ رکنی شنگھائی تعاون کونسل (ایس سی او) کا وزراِ خارجہ اجلاس سمرقند میں منعقد ہوا تھا؟ مجھے بھی تصدیق کے لیے احتیاطاً گوگل سرچ کرنا پڑی۔

https://p.dw.com/p/4R1q3
News Blogger Wusat Ullah Khan
تصویر: privat

اگر اس برس کا ایس سی او وزراِ خارجہ اجلاس بھارتی تفریحی مقام گوا کے بجائے بیجنگ، ماسکو یا اشک آباد سمیت کسی بھی چینی، روسی یا وسطی ایشیائی شہر میں ہوتا تو کسی کو کوئی دلچسپی ہوتی کہ اس میں کس نے پاکستان کی نمائندگی کی؟ کس نے کس سے ہاتھ ملایا یا نہیں ملایا یا صرف دونوں ہاتھ جوڑ کے رسم پوری کی۔کس میزبان وزیرِ خارجہ نے ڈنر دیا۔ اس میں کس کی کیا باڈی لینگویج تھی۔کسے یاد رہتا۔ مگر گوا میں تو بلاول اور جے شنکر کا ایک ایک قدم یاد رکھوایا جاتا رہا۔ اس کا بھی ریکارڈ رکھا گیا کہ کس نے کتنے سیکنڈ تک دوسرے سے آنکھیں چار کیے رکھیں۔

اچھے وقتوں کی بات ہے کہ وزیرِ اعظم لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی یا کوئی بھی پاکستانی وزیرِ خارجہ کراچی سے ڈھاکہ آتےجاتے دلی کے پالم ائیرپورٹ پر چائے پینے کے لیے رک جاتا اور کوئی نہ کوئی بھارتی عہدیدار وہاں میزبانی کے لیے موجود ہوتا۔ 

پنڈت نہرو کسی مغربی ملک کے دورے پر جاتے یا آتے ہوئے اکثر کراچی ائیرپورٹ پر مختصر قیام کرتے۔کوئی نہ کوئی پاکستانی عہدیدار ان کا استقبال کرتا، چائے بسکٹ ہوتا، جب طیارے کی ری فیولنگ مکمل ہو جاتی تو پنڈت جی کو خدا حافظ بھی کہا جاتا۔ ایک بار پنڈت جی کے ایسے ہی ٹرانزٹ قیام کے دوران ایوب خان گپ لگانے کے لیے ائیرپورٹ چلے گئے۔ اگلے دن اکثر اخبارات میں اس ملاقات کے لیے دو کالمی سرخی کو کافی سمجھا گیا۔

آج یوں ہے کہ پاک بھارت سرحدی حکام کی واہگہ اٹاری سرحدی لکیر پرفلیگ میٹنگ بھی ہو تو کوئی نہ کوئی لال بھجکڑ اینکر پوچھ بیٹھتا ہے کہ کیا اس فلیگ میٹنگ کا یہ مطلب ہے کہ دونوں دیشوں کے سمبندھوں پر جمی برف پگھل رہی ہے؟ 

پاکستانی اور بھارتی دفترِ خارجہ یہ وضاحت کرتے کرتے تھک چکے کہ پاکستانی وزیرِ خارجہ بھارت کا دورہ نہیں کر رہے بلکہ ایک علاقائی ادارے کی کانفرنس میں شرکت کے لیے محض اس جگہ آئے ہیں جو کانفرنس کے لیے چنی گئی ہے۔ بھارت نے بطور میزبان ہر رکن ملک کی طرح پاکستان کو بھی دعوت نامہ بھیجا اور چین کو بھی۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت کے دونوں مہمان ممالک کے بارے میں یا دونوں ممالک کے بھارت کے بارے میں خیالات یا موقف میں تبدیلی آ گئی ہو۔ ویسے بھی ایسے مشترکہ علاقائی اجلاسوں میں دو طرفہ موضوعات زیرِ بحث نہیں آتے۔

اگر کوئی پھر بھی بلاول بھٹو یا چینی وزیرِ خارجہ کی گوا میں آمد کو دو طرفہ رابطے یا کسی گرم جوشی سے نتھی کرنا چاہتا ہے تو اس کی عقل پر سوالیہ نشان ہے۔

اس منطق کی رو سے ایرانی صدر کو نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانا ہی نہیں چاہیے۔کیونکہ نیویارک امریکہ میں ہے اور کوئی بھی فارغ الدماغ  سیاستداں یا اینکر پرسن منہ اٹھا کےکہہ سکتا ہے کہ ''ایرانی صدر کے 'دورہ امریکہ‘ سے دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنے کا امکان ہے 'یا‘ ایرانی صدر نے بالاخر نیویارک جا کے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔‘‘

اس طرح کی سوچ  مصور کرنے کے لیے اردو میں دور کی کوڑی لانے کا محاورہ اتنا مزہ نہیں دیتا جتنا یہ پنجابی محاورہ کہ 'تسی تے تھک وچ پکوڑے تل سکدے او‘(آپ تو تھوک میں بھی پکوڑے تل سکتے ہیں) یا پھر پشتو کا یہ محاورہ کہ آپ تو تھوک سے بھی پن چکی چلا سکتے ہو۔

مگر کیا کریں، ہم ایسے ہی ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں آمنے سامنے آتی ہیں بھلے وہ کوالیفائنگ راؤنڈ کے مقابلے یا میچ ہی کیوں نہ ہوں۔ جو جیت گیا اس کے پرستاروں کے لیے گویا فائنل کی ٹرافی ہاتھ آ گئی اور جو ہار گیا اس نے گویا سب ہار دیا۔ کالے چور سے ہار جانا پر بھارت سے نہ ہارنا۔ زمبابوے بھلے کپ لے جائے مگر بھارت نہ لے جانے پائے۔

دو طرفہ تعلقات کیسے بہتر ہو سکتے ہیں یا ایک دوسرے کے لیے قابلِ برداشت ہو سکتے ہیں؟ اس بابت کسی کی کوئی دلچسپی نہیں۔کیونکہ خراب تعلقات کی صنعت سے بہت سوں کا روزگار وابستہ ہے۔ لہذا رائی کا پہاڑ بنانا باہمی ضرورت ہے۔

دونوں ممالک کو یہ سہولت حاصل ہے کہ جب اندرونِ ملک معاملات قابو میں نہ آ رہے ہوں تو  ذمہ داری دوسرے پر ڈال کے خود پوتر ہو جاؤ۔ دونوں جانب کے میڈیا کو تحمل، برداشت اور مشترکہ مثبت میراث اجاگر کرنے سے کیوں دلچسپی ہو جب منڈی میں سستے مرچ مصالحے کی فروخت سے ہی منافع آ رہا ہو۔

آپ لاکھ سمجھاتے رہیں کہ  انسان ساتھ ساتھ رھتے ہوئے بھی دشمنی  برقرار رکھ سکتے ہیں۔ مگر اس بات کی سمجھ ایک عام بھارتی یا پاکستانی کو جتنی ہے اتنا ہی مشکل دونوں طرف کی سیاست و سفارت اور موت کے کاروبار پر کھڑی صنعت کو قائل کرنا ہے۔

سوتے کو جگانا کوئی مسئلہ نہیں۔ جاگتے کو نیند سے اٹھائیں تو مانیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔