1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تھانوں کے گھیراؤ کا رجحان: کئی حلقوں کو تشویش

عبدالستار، اسلام آباد
18 مئی 2021

پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے مبینہ ملزمان کی حوالگی کے لیے مجمع  کا تھانے کے باہر جمع ہونے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، جس پر ملک کے کئی حلقے تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3tZAs
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Sajjad

سکیورٹی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رجحان بہت خطرناک ہے اور یہ ریاست کی کمزور ہوتی ہوئی رٹ کا عکاس ہے۔

خطرناک رجحان

ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان میں مذہبی تنظیموں کے عروج کے بعد اب یہ رجحان بن گیا ہے کہ جب بھی توہین رسالت یا توہین مذہب کے کسی ملزم کو پکڑا جاتا ہے تو مذہبی جماعتوں کے کارکنان یا عام عوام تھانے کا گھیراؤ کر لیتے ہیں اور پولیس سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس ملزم کو ان کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ خود اس کو سزا دیں۔ اس طرح کے واقعات تقریبا پاکستان کے تمام صوبوں میں رونما ہو رہے ہیں، جس سے کئی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

تازہ واقعہ

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے گولڑہ میں ایسا ہی ایک واقعہ کل بروز پیر رونما ہوا جب دو ملزمان فیض اللہ اور توقیر کو پولیس نے توہین مذہب کے جرم میں گرفتار کیا۔ پولیس کےمطابق فیض اللہ نشہ کرتا ہے جب کہ توقیر اس کا بھائی ہے۔ گولڑہ پولیس کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پولیس ملزمان کو تھانے لائی، تو رات کے دوران دو سے ڈھائی سو افراد نے تھانے کا گھیراؤ کر لیا اور انہوں نے پولیس سے مطالبہ کیا کہ ان ملزمان کوان کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ خود اس کو سزا دیں۔  تاہم پولیس نے ان کے اس مطالبے کی بھرپور مزاحمت کی۔ جس پر ملزمان نے تھانے میں گھس کر توڑ پھوڑ کی ۔" پولیس کا دعوی ہے کہ اس دوران مجمع میں سے کسی نے فائرنگ بھی کی جس سے ایک پولیس والا زخمی ہوا جب کہ تھانے کے باہر جمع ہونے والے افراد نے تھانے کی پراپرٹی کو بھی نقصان پہنچایا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ پولیس نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی ہے، جس میں تقریباً 30 کے قریب افراد نامزد کیے گئے ہیں جبکہ بقیہ نامعلوم ہیں۔ گولڑہ پولیس کے مطابق ان میں سے تین افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور بقیہ کی گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔

کمزور ہوتی ہوئی رٹ

سکیورٹی امور کے ماہر اور سابق آئی جی سندھ افضل علی شگری کا کہنا ہے کہ اس طرح ملزمان کی حوالگی کے لیے تھانے کا گھیراؤ کرنا بہت خطرناک رجحان ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہمارے دور میں بھی کچھ ایسے واقعات ہوتے تھے جس میں لوگ تھانے کا گھیراؤ کرتے تھے لیکن ان کو آسانی سے کنٹرول بھی کر لیا جاتا تھا اور اس کے بعد گھیراؤ کرنے والوں کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا تھا جس سے یہ بات واضح ہو جاتی تھی کہ ریاست کی رٹ مضبوط ہے۔ اس کام کے لیے ہمیں حکومت کی حمایت بھی حاصل ہوتی تھی اور ہمارا ساتھ بھی دیتی تھی لیکن اب تو حکومت پولیس والوں کو قربانی کا بکرا بنا دیتی ہے جس کی مثال تحریک لبیک کی طرف سے پولیس کے خلاف اپنایا جانے والا طرز عمل ہے۔''

سخت ایکشن لیا جائے

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسے کسی گھیراؤ کی صورت میں پولیس کے پاس اسٹینڈنگ آپریٹنگ پروسیجر ہوتا ہے۔ "عموما تھانوں میں اضافی نفری ہوتی ہے۔ چالیس پچاس کے قریب لوگ ہوتے ہیں اس کے علاوہ عموما تھانے کے مرکزی دروازے کو بند کر دیا جاتا ہے تاکہ مجمع اندر نہ گھسے۔ اس کے علاوہ پولیس کے پاس یہ آپشن ہوتا ہے کہ وہ مزید نفری طلب کرلے لیکن معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم رواداری کی وجہ سے پولیس میں بہت خوف ہے۔ ایسے واقعات کی وجہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہو پاتے۔ تفتیش کے معاملے میں بھی پولیس دباؤ کا شکار ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے پورا کا پورا نظام متاثر ہوتا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ گھیراؤ کی صورت میں پولیس سی سی ٹی وی کیمرے کی مدد سے ان لوگوں کی شناخت کرے، جو تھانے کے گھراؤ یا پولیس پر حملے میں  ملوث ہوں اور سخت ایکشن لے۔''

سزاؤں میں تاخیر

پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے یہ رجحان اس لیے بھی بڑھ رہا ہے کہ عموما توہین رسالت یا توہین مذہب کے مقدمات میں سزا میں تاخیر ہوتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "پھراین جی اوز ایسے ملزمان کی حمایت میں نکل اتی ہیں، جس کی وجہ سے عوام کو غصہ آتا ہے۔ تو میرے خیال میں توہین مذہب و توہین رسالت کے جو بھی ملزمان ہیں ان کو فوری طور پر سزا ہونا چاہیے تاکہ لوگ مشتعل نہ ہوں۔ تاہم میں یہ بھی کہوں گا کہ اس طرح تھانے کا گھیراؤ کرنا اور ملزمان کی حوالگی طلب کرنا بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ ملک میں قانون و آئین موجود ہے۔''

دباؤ کا حربہ

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ گھیراؤ کا یہ طریقہ پولیس اور انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کا ایک حربہ ہے، جس کو مذہبی قوتیں استعمال کرتی ہیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیئرپرسن ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ اس طرح کا رجحان پولیس اور حکومت پر دباؤ ڈالنا کا حربہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " اس طرح کے واقعات میں عموما الزامات لگانے والوں کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کے الزامات غلط ہیں۔ اس لیے وہ اس طرح تھانے کا گھیراؤ کر کے پولیس انتظامیہ اور عدلیہ پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ مذہبی قوتوں کے سامنے نہ صرف پولیس اور عدلیہ بے بس نظر آتی ہے بلکہ حکومت بھی ان سے ڈر جاتی ہے اور اس طرح کے واقعات میں عموما ملزمان کو انصاف نہیں ملتا۔''

ان کا مذید کہنا تھا کہ سات کے قریب ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں جن میں ملزمان پر صرف الزام لگا اور ان کو ان کے گھر کے سامنے یا عدالت جاتے ہوئے یا پولیس سٹیشن جاتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔

یورپی یونین کی قرارداد اسلاموفوبیا پر مبنی ہے؟