تيونس ميں اسلامی پارٹی کے حکومت بنانے کا امکان
22 نومبر 2011تيونس کی نو منتخب عبوری پارليمنٹ ايک نيا آئين تشکيل دے گی اور اگلے سال اليکشن بھی کرائے گی۔ ليکن فی الحال عبوری عرصے کے دوران طاقت اور اختيارات کی تقسيم پرشديد کھينچا تانی کے بعد اتفاق رائے ہو گيا ہے۔ آج پارليمنٹ ميں ملک کی نئی سياسی قيادت پر رائے شماری ہو رہی ہے۔ ملک کی تين سب سے بڑی جماعتوں کے درميان اعلٰی ترين عہدوں کی تقسيم پر معاہدہ ہوگيا ہے۔ ليکن فلسفی يوسف صديق نے کہا: ’’صرف حکومت اور مختلف محکموں ميں عہدوں پر ہی بات چيت ہو رہی ہے۔ ليکن اصل معاملہ توايک ريپبلک کے بنيادی اصولوں کا ہے۔‘‘
تيونس کی عبوری حکومت ميں اعلٰی ترين عہدے اُن کے پاس ہوں گے، جو لمبے عرصے تک معزول صدر بن علی کے مخالف رہے تھے۔ بائيں بازو کے سياستدان منصف مرزوقی صدر مملکت اور سوشل ڈيمو کريٹ مصطفٰی بن جعفر عبوری پارليمنٹ کے اسپيکر ہوں گے۔ کئی عشروں تک کالعدم رہنے والی اسلامی پارٹی النہضہ کے نائب قائد حمادی جبالی وزير اعظم ہوں گے۔ يوسف صديق کے خيال ميں بھی يہ کوئی برا انتخاب نہيں ہے۔ ليکن وہ ضرورت سے زيادہ جوش و خروش سے خبردار کرتے ہيں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس پر بہت کم بحث ہو رہی ہے کہ نيا تيونس آخر کس قسم کا ہوگا: ’’مثال کے طور پر نئے آئين ميں اسلام کا کردار کيا ہوگا؟ اگر اسلام نہيں تو پھر ہماری نئی رياست کی بنياد آخر کيا ہو گی؟‘‘
نامزد وزيراعظم جبالی نے مخلوط حکومت کی تشکيل کے ليے مذاکرات ميں کہا تھا کہ تيونس ايک ’چھٹی خلافت‘ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ مسلم ممالک ميں اگر اس قسم کی باتيں کی جائيں، تو خاص طور پر مغرب ميں اُن پر بہت تنقيد کی جاتی ہے۔ جبالی نے بعد ميں اس سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے الفاظ کو غلط جامہ پہنايا گيا تھا، ليکن ناقدين اُن کے بيان کو پارليمنٹ ميں 89 نشستوں والی اسلام پسند پارٹی النہضہ کے اسلامی منصوبے کی طرف اشارہ سمجھتے ہيں۔ منصف مرزوقی نے، جو تيونس کے نئے صدر بننے والے ہيں، کہا: سب سے بڑا چيلنج بے روزگاری کے خلاف مہم ہے۔ جہاں تک خواتين کے حقوق کا تعلق ہے تو اسلام پسند بھی اُن کے حامی ہيں۔ ليکن معيشت کے ميدان ميں ہميں صحيح اقدامات کی شديد ضرورت ہے۔ خاص طور پر ديہی علاقوں کے عوام بے صبر ہو رہے ہيں اور ہميں مشکلات کا سامنا ہو گا۔
رپورٹ: اليکزانڈر گوئبل، رباط / شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک