1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تيونس: مخالف جماعتوں کے مظاہرين آمنے سامنے

عاصم سليم4 اگست 2013

تیونس میں ہفتے کے روز حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک بڑی ریلی نکالی گئی۔ اس ریلی کا انعقاد اپوزیشن کے مظاہروں کے جواب میں کیا گیا ہے جو ملک کی اسلام پسند حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/19JRs
تصویر: Reuters

تيونس ميں حکمران جماعت النہضہ نے دعویٰ کيا ہے کہ دارالحکومت تيونس کے ’قصباح اسکوائر‘ پر ہفتہ تين اگست کے روز قريب دو لاکھ افراد نے حکومت کی حمايت ميں ريلی نکالی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مظاہرين، ہاتھوں ميں ملکی پرچم تھامے، حکومت کی حمايت ميں نعرے لگاتے ہوئے نظر آئے۔ اس موقع پر النہضہ کے رہنما راشد غنوشی نے اپنے حاميوں سے مخاطب ہو کر کہا، ’’جو لوگ ايسا سمجھ رہے تھے کہ يہاں بھی مصر کے جيسی صورتحال پيدا ہو گی، وہ غلط تھے۔ تيونس کا انقلاب ايک مثال ہے اور يہ فوجی اقتدار کی راہ ہموار نہيں کرے گا۔‘‘

تيونس ميں حالات بگڑنے کے بعد سے يہ اب تک کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا، جسے نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق حکومت نے اپوزيشن کی جانب سے بڑھتے ہوئے مطالبات کے پيشِ نظر منعقد کرايا۔

دريں اثناء اپوزيشن کی جانب سے بھی ہزاروں افراد پر مشتمل ريلياں نکالی گئيں۔ تاہم تیونس میں منعقد ہونے والی ان مخالف ريليوں ميں کسی بھی ناخشگوار واقعے کی اطلاعات نہيں ملی ہيں۔

تيونس سياسی عدم استحکام کا شکار

واضح رہے کہ تيونس کی سياسی صورتحال ميں شدت اس وقت پيدا ہوئی، جب رواں سال فروری ميں سيکولر سياستدان اور اسلام پسند حکمران جماعت النہضہ کے سخت ناقد شُکری بِلعَید کو ان کے گھر کے باہر قتل کر ديا گيا۔ تيونس ميں اس واقعے کے بعد ملک گير پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گيا تھا۔

بعد ازاں گزشتہ ماہ پچيس جولائی کو اپوزیشن کے پارليمانی رکن محمد براہمی کو تيونس شہر کے ايک نواحی علاقے ميں ان کے گھر کے باہر ہلاک کر ديا گيا تھا۔

25 جولائی کو براہمی کو ان کے گھر کے باہر ہلاک کر ديا گيا تھا
25 جولائی کو براہمی کو ان کے گھر کے باہر ہلاک کر ديا گيا تھاتصویر: Reuters

اپوزيشن جماعتوں کے اتحاد نے منگل کے روز ايک ريلی نکالنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ تیونس میں حزب مخالف جماعتیں ملکی قانون ساز اسمبلی کی تحليل اور اسلام پسند حکمران جماعت النہضہ کی اقتدار سے عليحدگی کا مطالبہ کر رہے ہيں۔ اپوزيشن کا کہنا ہے کہ حکومت نہ صرف پہلے بِلعَید اور اب براہيمی کے قتل روکنے ميں ناکام رہی ہے بلکہ عسکريت پسندوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے بھی قاصر ہے۔

دوسری جانب ہفتے کے روز ملکی وزير اعظم علی العریض نے قومی يکجہتی پر زور ديتے ہوئے دہرايا کہ ان کی حکومت اقتدار چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہيں رکھتی۔

دريں اثناء تيونس کی فوج الجزائر کی سرحد کے قريب پہاڑی علاقے ميں اسلامی عسکريت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ملکی حکومت يہ تسليم کرتی ہے کہ اسے شدت پسندی سے خطرات لاحق ہيں۔