1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

توہین مذہب پر مبنی فلم اور رشدی کا ناول

20 ستمبر 2012

پیغمبر اسلام کی توہین پر مبنی فلم اور تصاویر کے خلاف حالیہ مظاہروں نے بھارتی نژاد برطانوی مصنف سلمان رشدی کے معاملے کو بھی پھر سے زندہ کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/16Bj4
تصویر: AP

ابلاغیات کے ماہرین کی رائے میں چونکہ 80ء کی دہائی میں انٹرنیٹ اس قدر عام نہیں تھا اسی لیے رشدی کے خلاف عوامی احتجاج کا دائرہ بھی اس قدر وسیع اور پرتشدد نہیں تھا۔ سلمان رشدی کو ان کے ناول The Satanic Verses کی ’پاداش‘ میں بہت سے اسلامی ممالک میں ’توہین رسالت کا مرتکب‘ ہونے پر سزائے موت کا حقدار ٹہرایا گیا تھا۔ رشدی کی یادداشتوں پر مبنی ایک نئی کتاب 'Joseph Anton' منظر عام پر آچکی ہے۔ سلمان رشدی نے اس کتاب میں اس زمانے کی قصے بیان کیے ہیں، جب وہ قتل کیے جانے کی خوف کے سبب جعلی نام 'Joseph Anton' کے ساتھ جی رہے تھے۔

ایک ایرانی مذہبی تنظیم نے مبینہ طور پر اب رشدی کو قتل کرنے کا انعام 21 لاکھ یورو سے بڑھا کر 25 لاکھ یوروکر دیا ہے۔ رشدی کا کہنا ہے کہ وہ خوفزدہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے سر کی قیمت لگانے والوں نے کافی عرصے سے یہ انعام مقرر کر رکھا ہے کہ مگر بہت کم ہی لوگ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ سلمان رشدی نے حالیہ مظاہروں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جس میں مختلف اسلامی ممالک میں مشتعل مظاہرین چار امریکیوں کو ہلاک اور مغربی ممالک کے کچھ سفارتخانوں کو نذر آتش کرچکے ہیں جبکہ اس دوران متعدد مقامی افراد بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا ہے۔

Antiamerikanische Proteste in Malaysia
تصویر: Reuters

لندن اسکول آف اکنامکس سے وابستہ ابلاغیات کے ماہر امریس شوماخر کے بقول بہت سے مسلمان ’توہین مذہب‘ پر مبنی فلم 'Innocence of Muslims' میں رشدی کے ناول 'The Satanic Verses‘ کا عکس دیکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں مخلتف نظریات کے حامل لوگوں میں رابطے کی گنجائش کم تھی تاہم اب اطلاعات کے اس دور میں یہ سب بدل گیا ہے، ’’ اب الگ تھلگ رہنے کی سہولت نہیں رہی، انتہا پسندوں میں مباحثے کی صلاحیت نہیں ہے اور وہ ایک دوسرے سے جھگڑ پڑتے ہیں، اس تمام تر صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ اب انتہا پسندانہ موقف اختیار کرتے ہیں۔‘‘

برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم Stop the war coalition نامی سماجی تنظیم سے وابستہ لنڈسے جرمن کے خیال میں رشدی کے ناول اور حالیہ اسلام مخالف فلم کے خلاف ردعمل کو مختلف انداز میں دیکھنا چاہیے،’’ میں رشدی کے خلاف جاری کیے گئے فتوے کے حق میں نہیں تاہم یہ محض ایک مصنف کے خلاف نہیں بلکہ یہ مغربی حکومتوں کی مشرق وسطیٰ میں جاری پالیسیوں کے خلاف ردعمل ہے، جب تک مغربی ممالک مسلم ممالک میں اپنی پالیسیاں نہیں بدلتے ایسی چیزیں ہوتی رہیں گی۔‘‘

متنازعہ امریکی فلم کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اسی اثنا میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اس فلم کو شرمناک عمل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فلمساز نے آزادیء اظہار کا غلط استعمال کیا۔ نیویارک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بان کی مون نے کہا کہ آزادیء اظہار ایک بنیادی انسانی حق ہے مگر اس سے دوسرے کے احساسات مجروح کرنا ایک شرمناک عمل ہے۔

(sks/ ab (Reuters, dw