’توہین رسالت سے متعلق قانون میں ردوبدل نہیں ہورہا‘
31 دسمبر 2010حکمراں پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر مملکت کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف مذہبی سیاسی جماعتوں کے لئے بلکہ تمام مسلمانوں کے لئے انتہائی حساس نوعیت کا معاملہ ہے۔ پریس انفارمیشن سینٹر اسلام آباد میں اس معاملے کی وضاحت کے لئے خصوصی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔
اس پریس کانفرنس سے قبل مختلف مذہبی تنظیمیں اور جماعتیں جمعہ 31 دسمبر کو پر امن احتجاجی ہڑتال کا اعلان کرچکی ہیں۔ سخت گیر مؤقف کی حامل سیاسی جماعتوں کو خدشہ لاحق ہے کہ اسلام آباد حکومت اس قانون میں ردوبدل کرسکتی ہے۔
حال ہی میں آسیہ بی بی کو سنائی گئی سزا کے بعد عشروں سے متنازعہ چلے آرہے اس قانون میں تبدیلی کی صدائیں ایک بار پھر بلند ہونا شروع ہوئی ہیں۔ مغربی ممالک بھی اس مقصد کے لئے پاکستانی ترقی پسند حلقوں کے ہمنوا ہیں۔ مسیحی خاتون پر بھی پیغمبر اسلام کی توہین کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا جس پر انہیں موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔
آسیہ کی رہائی کے لئے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینیڈکٹ شانزدہم سمیت عالمی رہنما اپیل کرچکے ہیں جبکہ پاکستان کے اندر کئی قوتیں ان کی سزا پر عملدرآمد کے لئے دباؤ قائم رکھے ہوئی ہیں۔اس الزام کے تحت موت کی سزا پانے والی آسیہ پہلی پاکستانی خاتون ہیں۔ اس سے قبل کئی حضرات کو توہین رسالت سے متعلق قانون کے تحت موت کی سزا سنائی جاچکی ہے تاہم کسی پر بھی عملدرآمد نہییں ہوا۔
پاکستانی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات نے اپنی پریس کانفرنس میں اپیل کی کہ اس معاملے کو سیاسی نہ بنایا جائے۔ جمعہ کو ہڑتال کرنے والے اس لئے بھی حکومت کی سابق یقین دہانیوں پر بے اعتباری ظاہر کر رہے تھے کیونکہ حکومتی جماعت سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمنٹ شیری رحمان نومبر میں اس قانون کو ختم کرنے کی درخواست جمع کروا چکی ہیں۔
پاکستان کی لگ بھگ 18 کروڑ کی آبادی میں غیر مسلموں کی تعداد کا اندازہ محض 5 فیصد کے قریب ہے۔ پاکستان کی تمام اقلیتیں بشمول مسیحی اور ہندو برادری کو یہ شکایت ہے کہ توہین رسالت سے متعلق قانون کی آڑ میں انہیں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
رپورٹ : شادی خان سیف
ادارت : عابد حسین