1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تعلیمی ادارے یا کاروباری مراکز

DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
سعدیہ مظہر
31 اکتوبر 2023

پرائیویٹ تعلیمی ادارے اس وقت پاکستان کی ضرورت بن چکے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار امید افزا نہیں۔ تاہم چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ نجی تعلیم صرف ایک کاروبار بن چکی ہے۔

https://p.dw.com/p/4YEJW
DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
تصویر: privat

ہمدوش، آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ بظاہر تیرہ سال کا یہ بچہ، انٹرنیشنل ریلیشنز، اے آئی، جغرافیہ اور علم فلکیات پر بہت عبور رکھتا ہے ۔ ہمدوش اس وقت ایک بہت بڑے نجی تعلیمی ادارے میں پڑھتا ہے۔ ایک روز اس کی انگریزی کی استاد انگلش وکیبلری لکھواتے ہوئے، انگلش کے لفظ "cusine" کو qusine" "لکھنے لگی۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ بچے نے ان کی تصحیح کی کوشش کی، جس پر وہ خاصی برہم ہوئیں۔

اب سوال یہ اٹھا کہ ماہانہ بیس سے تیس ہزار فیس دے کر بھی کیا ہم اپنے بچے کے لیے کوئی ایسا تعلیمی نظام نہیں حاصل کر سکتے، جو بچے کو اس کی ذہنی قابلیت کے مطابق پڑھائے؟ پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق اس وقت تقریباﹰ ساڑھے چھ ملین بچے پرائیویٹ سکولوں میں جاتے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں جانے والے بچوں کی تعداد 12 ملین کے قریب ہے۔

پاکستان اکنامک سروے کے مطابق  ایک مڈل کلاس آدمی اوسطاﹰ اپنی تنخواہ کا 60 فیصد بچوں کی تعلیم پر خرچ کرتا ہے۔ پھر بھی ہم معیار تعلیم اور رٹا لگانے والے بچے ہی کیوں پیدا کر رہے ہیں؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلی محلے کے ان سکولوں نے اتنی ترقی کی کہ اس وقت بہت سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کالجز اور یونیورسٹیوں تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ انٹرنیشنل معیار تعلیم کا چورن بیچتے یہ پرائیویٹ سکول آج کے ڈیجیٹل دور میں بھی بچوں کے کاندھوں پر سے بیس کلوکتابوں کا بوجھ کم نہیں کر پائے۔ اگر ایسا کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ منافع بخش کاروبار پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں۔ بھاری بھرکم ماہانہ فیس کے بعد، یونیفارم بھی انہیں سے ان کی طے کردہ قیمت پرخریدا جائے، اسٹیشنری اور مزید متفرق اخراجات  الگ، مگر جب بات اساتذہ کی اہلیت اور تعلیمی نظام کی ہو تو یہ تمام ادارے والدین کے سامنے ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر خود کو معصوم ثابت کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

ابھی تک صرف خیبرپختونخوا حکومت  نے ہی تمام تعلیمی اداروں کو پابند کیا ہےکہ وہ بچوں کے کاندھوں پر بھاری بستوں کا بوجھ نہ ڈالیں، باقی صوبے اس حوالے سے مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کے دور سے پروان چڑھتے ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے چیک اینڈ بیلنس کا حکومتی سطح پر کیا نظام ہے؟ سوائے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کہ جس میں نجی اداروں کوفیسوں میں بے تحاشہ اضافے سے روکا گیا۔

حکومت پنجاب کی جانب سے اس وقت صوبے کے تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اپنی عمارتوں کی رجسٹریشن کمرشل بلڈنگ کے طور پر کروائیں، جو بظاہر ناممکن لگ رہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس طرح ان تعلیمی اداروں کا منافع کم ہو جائے گا لیکن دوسری جانب بنا سوچے سمجھے یہ ادارے بچوں کی فیسیں بڑھا دیں گے جس کا بوجھ پھر والدین پر پڑے گا۔

پاکستان اس وقت نظام تعلیم کے حوالے سے بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، یہاں تک کہ نائجیریا جیسے ملک سے بھی بہت پیچھے ہے۔ بدقسمتی سے تعلیم کسی بھی حکومت کی کبھی ترجیح رہی ہی نہیں۔ اقوام متحدہ اور ایسی بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں پاکستان میں تعلیم کے حوالے سے کام بھی کر رہی ہیں اور سرمایہ کاری بھی۔ مگر کسی بہتر نتیجہ کی توقع تب تک ناممکن ہے جب تک حکومت خود اسے اپنی ترجیحات میں شامل نہ کرے۔

پاکستان کی بتدریج گرتی ہوئی معاشی حالت عوام پر ضروریات زندگی کا بوجھ مسلسل بڑھا رہی ہے۔ ایسے میں بنیادی تعلیم، جو آئین پاکستان کے آرٹیکل 21 کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے، عوام کے لیے بنیادی ضرورت کی بجائے، بوجھ بنتی جا رہی ہے، جس کی بہت بڑی وجہ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا منافع بخش کاروبار ہے۔

اب بھی اگر حکومت نے ان اداروں کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام وضع نہ کیا، سرکاری اداروں کا معیار بہتر کرنے کی جانب توجہ نہ دی تو پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والے شہزاد رائے، جیسی انسان دوست شخصیات بھی ہمت ہار جائیں گی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔