1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کے پہاڑوں پر آباد افغان واپس وطن جانے کے منتظر

2 جولائی 2022

ترکی کے پہاڑوں میں، اس قدر بلندی پر کہ بادل تقریباً سر کو چھو رہے ہیں، ایک افغان چرواہا اپنے گھر سے بہت دور رنگین پتھروں سے بھری وادی میں بھیڑوں کے ریوڑ سے اون تراشنے کی تیاری کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4DYa6
بیس سالہ چرواہے حافظ ہاشمی میمنی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتا جب تک کہ ایسا کرنا بالکل مجبوری نہ بن جائےتصویر: BULENT KILIC/AFP

اس وادی میں کبھی کرد آباد تھے، جنہوں نے جدید ترک ریاست کے ابتدائی سالوں میں تونجیلی نامی علاقے میں پرتشدد بغاوت کی تھی۔ لیکن مشرقی مرجان وادی میں کردوں کی جگہ اب رفتہ رفتہ افغانوں نے لے لی ہے، جو غربت اور خونریزی سے فرار ہو کر پیدل اور ٹرکوں کے ذریعے براستہ ایران یہاں پہنچے۔

دو دہائیوں تک جاری رہنے والے تنازعات کے بعد، اب کچھ افغان واپس جانے کا سوچ رہے ہیں چاہے انہیں افغانستان میں طالبان کی سخت گیر حکمرانی کا سامنا کرنا پڑے۔

بیس سالہ چرواہے حافظ ہاشمی میمنی کا کہنا ہے کہ کوئی بھی اپنا ملک چھوڑنا نہیں چاہتا جب تک کہ ایسا کرنا بالکل مجبوری نہ بن جائے۔ ان کی منگیتر جنگ زدہ ملک میں ان کا بے تابی سے انتظار کر رہی ہے۔

Türkei Afghanistan Schäfer Schafhirten
صدر رجب طیب ایردوآن کا اندازہ ہے کہ 300,000 افغان ترکی میں رہائش پذیر ہیں، جو جنگ زدہ شام کے 3.7 ملین افراد کی میزبانی بھی کرتا ہےتصویر: BULENT KILIC/AFP

''ہم یہاں آتے ہیں، چرواہے کا کام کرتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں، اور اپنے خاندانوں کو بھیجتے ہیں۔‘‘

سخت زمین پر نائیلان سے بنے کچھ خیمے لگے ہوئے ہیں۔ یہ افغان خاندانوں کے نئے گھر ہیں۔ اس سے ذرا فاصلے پر، چند افراد ایک شیڈ میں اپنی بھیڑوں اور بکریوں سے دودھ نکال رہے ہیں۔

میمنی کا کہنا ہے، ''اگلے سال، میں افغانستان واپس چلا جاؤں گا۔ جنگ ختم ہو چکی ہے۔‘‘ میمنی کے مطابق، ''جب (افغان) ریاست طالبان سے لڑ رہی تھی، معیشت کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ لیکن اب ہم واپس جانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘‘

صدر رجب طیب ایردوآن کا اندازہ ہے کہ 300,000 افغان ترکی میں رہائش پذیر ہیں، جو جنگ زدہ شام کے 3.7 ملین افراد کی میزبانی بھی کرتا ہے۔

پاکستان میں تعلیم کے حق سے محروم افغان بچے

تونجیلی کے رہنے والے ترک شہری مصطفیٰ آجون کا کہنا ہے کہ مقامی لوگ افغانوں کی جانب سے ان کے ریوڑوں کی دیکھ بھال کرانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ 67 سالہ آجون ان کے ساتھ مل کر بھیڑوں کے دودھ سے پنیر اور دہی بناتے ہیں۔ آجون کے مطابق، ''ہمارے بچے یا تو یہ کام نہیں کر سکتے یا نہیں کرنا چاہتے۔‘‘

یہ کام خطرناک بھی ہے۔ ایک شخص نے بندوق بھی اٹھا رکھی ہے۔ اس کا مقصد رات کو شکار کے لیے نکلنے والے بھیڑیوں اور ریچھوں کو بھیڑوں پر حملہ کرنے سے روکنا ہے۔

یہاں موجود ایک 55 سالہ افغان چرواہے کا کہنا ہے، ''میں اس طرح ریوڑ کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ میں یہاں سات سال سے ہوں، میں نے تین سال کام کیا اور افغانستان چلا گیا لیکن پھر یہاں دوبارہ آنے کا فیصلہ کیا۔‘‘ اپنے دردناک سفر کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے، ''خدا نے چاہا اور اگر میری صحت نے اجازت دی تو میں اگست میں افغانستان واپس جاؤں گا جب گرمی کی شدت کم ہونے لگے گی۔‘‘

Türkei Afghanistan Schäfer Schafhirten
مقامی لوگ افغانوں کی جانب سے ان کے ریوڑوں کی دیکھ بھال کرانے کے عادی ہو چکے ہیںتصویر: BULENT KILIC/AFP

یہاں موجود ایک اور 29 سالہ افغان چرواہے سلیمان نے اپنی افغان بیوی اور دو چھوٹے بچوں کو چار سال سے نہیں دیکھا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کتوں کے ساتھ ترکی کے پہاڑوں میں چرواہے کے طور پر کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ اپنی بیٹی کی تصویر دکھاتے ہوئے سلیمان نے کہا، ''مجھے پہاڑ بہت پسند ہیں۔ ترکی کے پہاڑ بہت خوبصورت ہیں۔‘‘

ب ج،ج ا (اے ایف پی)