1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت: تنازعہ قبرص رکاوٹ بنا ہوا

برنڈ ریگرٹ، کشور مصطفیٰ5 نومبر 2013

ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کے بارے میں بات چیت کا سلسلہ تین برسوں سے جمود کا شکار ہے۔ کل یعنی چھ نومبر کو انقرہ حکومت اور یورپی یونین کے مابین اس بارے میں مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ سے شروع کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1ABpH
تصویر: picture-alliance/dpa

تاہم بات چیت صرف ایک گھنٹے پر محیط ہوگی۔ اطلاعات کے مطابق اس ایک گھنٹے میں چند تقاریر ہوں گی، ایک یادگار گروپ فوٹو، اور ایک پریس کانفرنس کا انعقاد۔ ترکی کی یورپی یونین میں رکنیت کے حصول کی دیرینہ خواہش کے بارے میں کسی ٹھوس فیصلے کے سامنے آنے کی کوئی توقع نہیں کی جا رہی ہے۔ کل ترکی اور یورپی یونین کے مابین ہونے والے مذاکرات دراصل ایک علامتی میٹینگ سے زیادہ نہیں ہیں۔ یہ معاملہ علاقائی سیاست کا ہے۔ ترکی کے ساتھ مذاکرات کے اہم ترین موضوعات مثلاً انسانی حقوق اور عدلیہ کے بارے میں بات، یورپی یونین اکتوبر میں ہونے والے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔

یورپی یونین میں توسیع کے امور کے کمشنر اشٹیفن فیولے نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں ترکی میں اصلاحات کے سلسلے میں کیے جانے والے اقدامات کو مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔ حالانکہ وہ بھی دیگر یورپی لیڈروں کی طرح یہ کہتے ہیں کہ ترکی میں آزادئِ رائے، مذہبی آزادی اورعدلیہ کی آزادی جیسے معاملات میں اب بھی کمزوریاں موجود ہیں۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں،" اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ ترکی بنیادی حقوق کے شعبے میں کچھ تبدیلیاں لائے تو ہمیں اس موضوع پر انقرہ حکام کے ساتھ کُھل کر بات چیت کرنی چاہیے" ۔

EU Türkei Beitrittsverhandlungen Symbolbild
مسیحی اکثریت والی یورپی یونین میں مسلم اکثریتی آبادی والے ملک ترکی کی شمولیت ایک عرصے سے زیر بحثتصویر: AP

یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف سے ترک حکومت پر تنقید کا سلسلہ اُس وقت تیزی اختیار کر گیا تھا، جب استنبول کے تقسیم اسکوائر کے قریب واقع گِیزی پارک میں درختوں کی کٹائی کے خلاف دیا جانے والا ایک پر امن دھرنا پُرتشدد رنگ اختیار کر گیا تھا۔ اکتیس مئی کو پولیس نے اچانک ہی مظاہرین کو منشتر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا تھا۔ اُس کے نتیجے میں انقرہ سمیت ترکی کے متعدد دیگر شہروں میں بھی لوگ حکومت کے خلاف احتجاج پر اتر آئے تھے۔

پس منظر میں ہمیشہ قبرص تنازعہ

کئی عشروں کی تیاریوں کے بعد 2005ء میں یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت سے متعلق مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ اُس کے بعد سے مذاکرات کا کوئی ایک باب بھی تکمیل کو نہ پہنچ سکا، نہ ہی قانونی طور پر بات چیت کو بند کیا گیا۔ یورپی یونین کی طرف سے مذاکرات کے نہایت حساس 14 ابواب قبرص کے تنازعے کے پس منظر میں بلاک کر دیے گئے۔ قبرص کو جو یورپی یونین کا رکن ہے، ترکی نے ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ 1974 ء سے بحیرہ روم کے اس جزیرے پر تُرک فوج قابض ہے۔

اپریل 2004 ء میں قبرص کی یورپی یونین میں بحیثیت رُکن شمولیت سے چند روز قبل ترکی اور یونانی قبرص کے دوبارہ اتحاد کا منصوبہ ایک ریفرنڈم کے ذریعے ناکام ہوگیا۔ یہ منصوبہ اقوام متحدہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔

Türkei Beitrittsverhandlungen Börse Istanbul Reaktionen Zeitung
یورپی یونین میں ترکی کی رکنیت کے بارے میں ترکی کے عوام کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہےتصویر: AP

ترکی رکنیت کے حصول کی شرائط پوری نہیں کر رہا

یورپی یونین میں ترکی کے وزیر ایگیمن باگیس کا ماننا ہے کہ ترکی ممکنہ طور پر کبھی بھی یورپی یونین کا رکن نہیں بن سکے گا۔ انہوں نے ایک ترک روزنامے حریت کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ اُن کا ملک ناروے کی طرح یورپی یونین کے تمام معیارات پر پورا اترنے اور یونین کے ممبر ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کے باوجود یورپی یونین کا ممبر نہیں بن سکے گا۔ باگیس نے تاہم اُمید ظاہر کی تھی کہ ایک عرصے سے ترکی کی رکنیت کی راہ میں کھڑی رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے اس بارے میں مذاکرات جلد از جلد دوبارہ شروع کیے جائیں گے۔ اس ضمن میں ایگیمن باگیس نے مزید کہا کہ یورپی یونین کے نقطہ نگاہ سے ترکی خود اس میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ انقرہ حکومت قبرص کو کم از کم بالواسطہ تسلیم کر لے۔