ترکی کی طرف شامی کُرد مہاجرین کا سیلاب رواں
21 ستمبر 2014شامی سرحدی علاقوں میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی بڑھتی ہوئی پیشقدمی کے خوف سے شام کی کرد آبادی کے ہزاروں باشندے فرار ہوکر ترکی کی سرحد عبور کر گئے ہیں۔ حالات کی سنگینی بین الاقوامی مداخلت کی متقاضی نظر آ رہی ہے۔
ترکی کے نائب وزیر اعظم نعمان کُرتُلمُس کے ایک تازہ ترین بیان کے مطابق گزشتہ جمعے کو ترکی کی سرحد کھولے جانے کے بعد سے اب تک ترکی کی سرحدوں کی طرف شامی کُرد پناہ گزینوں کا ایک سیلاب رواں ہے۔ اطلاعات کے مطابق اب تک 70 ہزار شامی کرُد باشندے پناہ کی تلاش میں ترکی کی سرحدوں میں داخل ہو چُکے ہیں۔
ترکی کو ان ہزاروں کُرد مہاجرین کی ملک آمد سے ایک نئی بحرانی صورتحال کا سامنا ایک ایسے وقت پر کرنا پڑا جب عراق میں انتہا پسند جہادی گروپ آئی ایس کے جنگجوؤں کی طرف سے اغوا کیے گئے 49 ترک باشندوں کو بحفاظت رہا کر وا کر ملک پہنچایا گیا۔ اس موقع پر مغویوں کا اُن کے خاندان والوں کے ساتھ نہایت جذباتی ملن دیکھنے میں آرہا تھا۔
اقوام متحد کی پناہ گزینوں کے امور کی ایجنسی نے کہا ہے کہ وہ امدادی کوششوں میں اضافہ کر رہی ہے کیونکہ مزید ہزاروں شامی پناہ گزینوں کی آمد متوقع ہے۔ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف تین سال سے جاری بغاوت کے نتیجے میں شام اور عراق سے متصل ملک ترکی میں اب تک آٹھ لاکھ 47 ہزار سے زیادہ پناہ گزین قیام پزیر ہیں۔
شام میں کُرد باشندوں اور اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے مابین غیر معمولی کشیدگی کا سبب آئی ایس کی کُرد اکثریتی شہر عین العرب، جسے کرد زبانی میں کوبانی بھی کہتے ہیں، کو اپنے قبضے میں لینے کی پیش قدمی بنی۔ عین العرب شام میں کُرد باشندوں کا تیسرا بڑا شہر ہے اور اسٹرٹیجک اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ شہر شام کے قدیم شمالی صوبے حلب میں اورترکی سے ملحقہ شام کی سرحد پر واقع ہے۔
گزشتہ منگل سے آئی ایس کے جنگجو مسلسل عین العرب کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے اور ان کا مقصد شام کے ترکی سے ملحقہ اس اہم شمالی سرحدی علاقے کے زیادہ سے زیادہ حصے پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اطلاعات کے مطابق آئی ایس نے جمعے کے روز اس علاقے کے 63 دیہات کو اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے تاہم برطانیہ میں قائم سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مانیٹرز کا کہنا ہے کہ آئی ایس کے جنگجوؤں اور شامی کرُد باشندوں کے مابین رات بھر ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 18 جنگجو ہلاک ہو گئے ہیں۔ آبزرویٹری کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز یعنی ہفتے کو اس تصادم میں مزید 13 جہادی ہلاک ہوئے جبکہ گزشتہ منگل سے جاری جھڑپوں میں اب تک کم از کم 25 کُرد جنگجو بھی مارے گئے ہیں۔ گزشتہ روز سیرین آبرویٹری ہی کی ایک رپورٹ سے پتہ چلا تھا کہ ترکی سے 300 کُرد جنگجو شام میں آئی ایس جہادیوں کے خلاف نبرد آزما پیپلز پروٹیکشن یونٹس YPG کو تقویت دینے کے لیے شام پہنچے ہیں۔
مبصرین نے ہفتے کے روز بتایا تھا کہ دولت اسلامیہ (آئی ایس) کے جنگجوؤں نے کم از کم 11 کرد باشندوں کو پھانسی دے دی ہے جبکہ ایک گاؤں سے بھاگنے والے تقریبا 800 افراد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
دریں اثناء ترکی پہنچنے والے شامی کُرد مہاجرین کی حالت ناگفتہ یہ بتائی جا رہی ہے۔ ان ہزاروں باشندوں میں ہر عمر کے انسان شامل ہیں۔ خاص طور سے نو عمر بچوں اور ضعیفوں اور بیماروں کی حالت ایک انسانی المیے کا پتہ دی رہی ہے۔