1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی نے خاشقجی قتل کیس میں 20 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی

26 مارچ 2020

ترکی نے سعودی حکومت کے ناقد صحافی جمال خاشقجی کے استنبول میں سعودی قونصل خانہ میں قتل کیس میں بیس ملزمان کے خلاف باضابطہ فرد جرم عائد کردی ہے۔

https://p.dw.com/p/3a3Gm
Türkei Istanbul | 1. Jahrestag der Ermordung von Jamal Khashoggi
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/L. Pitarakis

جن ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کی گئی ہے ان میں سعودی انٹلیجنس سروس کے سابق ڈپٹی چیف احمد الاسیری اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سابق اہم مشیر سعود القحطانی شامل ہیں۔

اسیری اور قحطانی پر خاشقجی کا ”جان بوجھ کر اور بہیمانہ قتل“ کرنے کے لیے ملزموں کو اکسانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر اٹھارہ سعودی شہریوں کے خلاف سعودی سفارت خانے کے اندر خاشقجی کا ”جان بوجھ کر اور بہیمانہ قتل“ سرانجام دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ یہ فرد جرم فون پر ہونے والی بات چیت، سفر کی تفصیلات، سی سی ٹی وی فوٹیج اور درجنوں گواہوں کے بیانات پر مبنی ”شواہد“ کی بنیاد پر عائد کی ہے۔

بہیمانہ قتل

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے کالم نویس اور سعودی حکومت اور بالخصوص ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے سخت ناقد 59 سالہ جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو استنبول میں سعودی قونصل خانہ میں قتل کردیا گیا تھا جب وہ وہاں سے اپنی منگیتر ہاتف چنگیز کے ساتھ شادی کے متعلق بعض دستاویزات حاصل کرنے گئے تھے۔ لیکن وہ اس عمارت سے کبھی باہر نہیں آئے اور نہ ہی ان کی باقیات مل سکیں۔

ترک حکام کا الزام ہے کہ خاشقجی کو پندرہ افراد پر مشتمل سعودی اسکواڈ نے مار ڈالا اور ان کی لاش کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔

خاشقجی کے قتل کے واقعے نے پوری دنیا کو ششدر کر دیا تھا۔ بعض یورپی حکومتوں اور سی آئی اے نے اس جرم کے لیے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو مورد الزام ٹھہرایا تاہم سعودی حکام اس الزام کی تردید کرتے رہے ہیں۔

ترکی میں دفتر استغاثہ کا کہنا ہے کہ بیس ملزمان جو ترکی سے سعودی عرب چلے گئے ہیں انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی اور ان کے خلاف غیر حاضری میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ قصوروار ثابت ہونے پر انہیں عمر قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کالامارڈ، جنہوں نے اس قتل کی تفتیش کی قیادت کی تھی، نے ترکی کی عدالت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا ”اس فرد جرم سے قتل کی مزید تفصیلات کو سامنے لانے میں مدد ملے گی۔ یہ جان بوجھ کر انجام دیا گیا تھا اور قتل کے لیے اکسانے میں چوٹی کے افسران کا ہاتھ تھا۔“ 

Mohammed bin Salman al-Saud ist der Kronprinz, Verteidigungsminister und stellvertretende Premierminister Saudi-Arabiens
تصویر: picture-alliance

ایگنس کا مزید کہنا ہے کہ خاشقجی کے قتل کے کیس میں اتنے شواہد موجود ہیں کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور اعلی عہدوں پر فائز دیگر سعودی افسران کو ذمہ دار ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اس قتل کی غیر جانبدارانہ تفتیش کرانے کا مطالبہ بھی کیا۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ خاشقجی کے قتل کے بعد قحطانی اور اسیری کوان کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا تھا۔ خاشقجی کے قتل کا مقدمہ سعودی عرب کی ایک عدالت میں بھی چلایا گیا۔ سعودی عدالت نے گزشتہ برس دسمبر میں تاہم ناکافی شواہد کا حوالہ دیتے ہوئے اسیری کو بری کردیا جبکہ قحطانی کے بارے میں کہا گیا کہ ان کا اس قتل سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ پانچ دیگر افراد کو سزائے موت اور تین کو قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایگنس کالامارڈ کہتی ہیں کہ سعودی عدالت کا فیصلہ انصاف کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے کیوں کہ مبینہ اصل ملزموں کو بخش دیا گیا۔

سعودی شہزادے کو خاشقجی کے قتل کی تحقیقات کا سامنا کرنا چاہیے

سعودی عرب نے ترکی کی عدالت کی طرف سے عائد فردِ جرم کے بارے میں فی الحال کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔

ج ا/  ص ز/   (ایجنسیاں)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں