1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی نے جرمن صحافی میزالے تولو پر سفری پابندی ختم کر دی

20 اگست 2018

ترک شہر استنبول کی ایک عدالت نے جرمن صحافی میزالے تولو پرعائد سفری پابندی کو ختم کر دیا ہے۔ اس خاتون صحافی کو گزشتہ برس دہشت گردی سے متعلقہ الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/33Pnb
Türkei, Istanbul, freigelassene Journalistin Mesale Tolu
تصویر: Reuters/O.Orsal

خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ذرائع کے حوالے سے بیس اگست بروز پیر بتایا ہے کہ ترکی کی ایک عدالت نے 33 سالہ جرمن صحافی میزالے تولو کو سفر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔

تولو کی رہائی کی خاطر بنائے گئے گروپ ’فریڈم فار میزالے تولو‘ نے بتایا ہے کہ ان کے شوہر سُوات چورلو کو البتہ ترکی چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ تولو کے شوہر چورلو کو بھی دہشت گردی سے متعلقہ الزامات کا سامنا ہے۔

دوسری طرف تولو نے بھی اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں اس خبر کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ’’میں اپنے حامیوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں، جنہوں نے میرے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور میری آزادی کی خاطر میرے ساتھ ڈٹے رہے۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ تولو پرعائد سفری پابندی تو ختم کر دی گئی ہے لیکن ان کے خلاف مقدمے کی کارروائی جاری رہے گی۔ استنبول کی عدالت کی طرف سے تولو کو سفر کی اجازت دیے جانے کو ایک حیران کن فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔

اپریل میں ہی عدالت نے ان پر یہ پابندی برقرار رکھنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ ترک میڈیا کے مطابق تولو کے خلاف مقدمے کی اگلی کارروائی سولہ اکتوبر کو شروع کی جائے گی۔ اگر ان پر الزامات ثابت ہو گئے تو انہیں پندرہ سال تک کی سزائے قید سنائی جا سکتی ہے۔

تولو حراست میں لیے گئے ان سترہ صحافیوں میں شامل ہیں، جن پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردانہ مواد کی تشہیر کے علاوہ اس انتہائی بائیں بازو کے نظریات کے حامل گروپ MLKP کے رکن ہیں، جسے ترک حکومت نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔

تولو کے خلاف مقدمے کی کارروائی شروع ہونے سے قبل انہیں گزشتہ برس اٹھارہ دسمبر کو ضمانت پر رہا کیا گیا تھا تاہم ان کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔

ترکی کی طرف سے تولو پر عائد سفری پابندی کو ایک ایسے وقت میں ختم کیا گیا ہے، جب انقرہ اور واشنگٹن حکومتوں کے مابین کشیدگی میں روزافزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کئی مبصرین کے مطابق اس پیش رفت کی وجہ دراصل ترکی کے یورپی یونین بالخصوص جرمنی کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ایک کوشش ہے۔

ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے