1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

ترکی نے اقوام متحدہ میں مسئلہ کشمیر کو پھر اٹھایا

صلاح الدین زین
21 ستمبر 2022

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ترک صدر نے کہا کہ وہ کشمیر میں بھی انصاف پر مبنی مستقل امن اور خوشحالی کے قیام کے لیے دعاگو ہیں۔ اس سے قبل بھارت کشمیر کے حوالے سے ان کے بیان پرنکتہ چینی کرتا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4H8lR
USA/Türkei Recep Tayyip Erdogan bei der UN-Generalversammlung
تصویر: Mary Altaffer/ASSOCIATED PRESS/picture alliance

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں عالمی رہنماؤں سے خطاب کرتے ہوئے ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے عالمی مسائل کا ذکر کرتے ہوئےتنازع کشمیر کے حل پر بھی زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی مسئلے کی وجہ سے، 'بھارت اور پاکستان کے درمیان ابھی تک امن قائم نہیں ہو سکا ہے۔‘  ترک صدر نے ابھی حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی تھی اور اس کے چند روز بعد ہی ان کا یہ بیان سامنے آیا ہے۔ 

ترک صدر نے کیا کہا؟

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران رجب طیب ایردوآن نے جہاں کئی عالمی امور پر بات کی وہیں کشمیر کے حوالے سے خطے میں پائی جانے والی بے چینی کا بھی ذکر کیا۔

انہوں نے کہا، ''بھارت اور پاکستان نے 75 برس قبل اپنی آزادی حاصل کر کے خود مختاری قائم کی تھی، اس کے بعد بھی ایک دوسرے کے درمیان اب تک امن اور یکجہتی قائم نہیں ہوپا ئی ہے۔ یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے۔ ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ کشمیر میں بھی انصاف پر مبنی مستقل امن اور خوشحالی قائم ہو۔''

دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کشمیری رہنما یاسین ملک نے بھوک ہڑتال ختم کر دی

ترک صدر کا یہ تازہ بیان بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے محض چند روز بعد آیا ہے۔  دونوں رہنماؤں نے گزشتہ جمعے کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر ملاقات کی تھی اور دو طرفہ تعلقات کی مختلف پہلووں کا جائزہ لیا تھا۔ اس موقع پر دونوں ملکوں نے مختلف شعبوں میں تعاون کو گہرا کرنے کے طریقوں پر بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔

'کشمیریوں کو بھارتی پرچم اٹھانے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘

ترک صدر اس سے قبل بھی وقتاً فوقتا مسئلہ کشمیر کو اٹھاتے رہے ہیں اور اس سے پہلے بھی انہوں نے جنرل اسمبلی میں کشمیر کی کشیدہ صورت حال پر کھل کر بات کی تھی۔ اس مسئلے پر وہ کشمیریوں کے حقوق کی کھل کر حمایت بھی کرتے رہے ہیں۔

Indien |  Mord an Rajini Bala: Soldaten in Srinagar
کشمیرمیں مرکزی حکومت کا حکم چلتا ہے اور اب بھی بہت سے کشمیری رہنما، سماجی کارکن اور علما کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں قید ہیںتصویر: Mukhtar Khan/AP/picture alliance

سن 2020 میں پاکستانی پارلیمان سے اپنے ایک تاریخی خطاب میں صدر ایردوآن نے، ''کشمیری عوام کی جدوجہد کا موازنہ پہلی جنگ عظیم کے دوران غیر ملکی تسلط کے خلاف ترک عوام کی لڑائی سے کیا تھا۔''

تاہم بھارت کشمیر سے متعلق ترک صدر کی تبصروں پر نکتہ چینی کرتا رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے پاکستانی پارلیمان سے ان کے خطاب پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کشمیر کے حوالے ان کے تمام بیانات کو مسترد کرتا ہے۔

برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے حوالے سے تنازعہ پایا جاتا ہے۔ بھارت اس متنازعہ خطے کو اپنا اٹوٹ اور ناقابل تنسیخ حصہ بتاتا ہے۔ لیکن کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما اور پاکستان استصواب رائے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ 

کشمیری صحافت کی حالت زار، کیا سب ٹھیک ہے؟

جب سے بھارت نے متنازعہ خطہ کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات ختم کیے ہیں، اس وقت سے مسئلہ کشمیر پر کھل کر آوازیں بھی اٹھنا شروع ہوئی ہیں اور اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم او آئی سی بھی اس پر بات کرتی رہی ہے۔

بھارت میں سیاسی رہنما بھی اس متنازعہ خطے کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ روز ہی رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے حکومت سے یہ سوال کیا تھا کہ وادی کشمیر میں سنیما ہال تو کھولے جا رہے ہیں تاہم شہر کی تاریخی جامع مسجد پر جو تالا لگا ہوا ہے، اسے کب کھولا جائے گا۔

واضح رہے کہ کشمیر کی مرکزی انتظامیہ نے سنیما گھر بنانے کی ایک نئی مہم شروع کی ہے جس کے تحت ہر ضلعے میں سنیما ہال تعمیر کیے جائیں گے۔  حال ہی میں گورنر نے ایسے دو سنیما گھروں کا افتتاح بھی کیا ہے۔   

سن 2019 میں بھارتی حکومت نے کشمیر کو حاصل خصوصی اختیارات ختم کر دیے تھے اور اس کا ریاستی درجہ بھی ختم کر دیا تھا۔ تب سے یہاں مرکزی حکومت کا حکم چلتا ہے اور اب بھی بہت سے کشمیری رہنما، سماجی کارکن اور علما کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں قید ہیں۔

بھارتی کشمیر کی مزاحمتی موسیقی کئی دلوں کو چُھو رہی ہے