1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹنگ مکمل

28 مئی 2023

چودہ مئی کو پہلے مرحلے میں انتہائی کم فرق سے فتح حاصل نہ کر سکنے والے ایردوآن کو جیت کے لیے فیورٹ قرار دیا جا رہا ہے۔ کامیابی کی صورت میں ترکی میں ایردوآن کے اقتدار کی تیسری دہائی شروع ہو جائے گی۔

https://p.dw.com/p/4Rub6
Türkei | Präsidentschaftswahl | Stichwahl | Erdogan
تصویر: Emrah Gurel/AP Photo/picture alliance

ترکی میں صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری ہے۔   پولنگ اتوار اٹھائیس مئی کی صبح مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ سے شام پانچ بجے تک جاری رہی ۔  یہ پہلا موقع تھا کہ ترکی کے صدارتی انتخابات دوسرے مرحلے میں داخل ہوئے۔

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی سیاسی زندگی پر ایک نظر

Türkeiwahl- Stichwahl Stimmzettel
دوسرے مرحلے میں بیلٹ پیپر پر صرف دو امیدوار یعنی ایردوآن اور کلیچ دار اولو آمنے سامنے ہیںتصویر: YSK

ان انتخابات میں کامیاب ہونے والا امیدوار آئندہ پانچ برس کے لیے ترکی کا حکمران ہو گا۔ صدارتی انتخابات کا یہ دوسرا مرحلہ چودہ  مئی کو پہلے راؤنڈ میں تین صدارتی امیدواروں میں سے کسی ایک کے بھی جیت کے لیے پچاس فیصد سے ایک ووٹ زائد کا ہدف حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے منعقد کرانا پڑا۔

پہلے مرحلے میں ایردوآن  نے چھ جماعتی اپوزیشن اتحادکے امیدوار اور ترکی کی مرکزی بائیں بازو کی پارٹی کے رہنما کمال کلیچ دار اولو کو چار فیصد ووٹوں کے فرق سے پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ ایردوآن کی یہ سیاسی انتخابی کارکردگی شدید مہنگائی اور تین ماہ قبل آنے والے تباہ کن زلزلے کے اثرات کے باوجود سامنے آئی تھی۔

ایک 74 سالہ سابق بیوروکریٹ کلیچ دار اولو نے اس صدارتی رن آف یا دوسرے مرحلے کے الیکشن کو ملک کے مستقبل کے لیے ایک ریفرنڈم قرار دیا ہے۔ ان انتخابات میں 64 ملین سے زیادہ شہری ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ پولنگ صبح آٹھ بجے شروع ہوئی۔

 اس انتخاب کے حتمی فیصلے کے  اثرات ترکی سے باہر بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ یورپ اور ایشیا کے سنگم پر کھڑے ترکی کا مغربی دفاعی اتحاد نیٹو میں بھی ایک کلیدی کردار ہے۔

چودہ مئی  کے انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ 87 فیصد رہا تھا اور آج اتوار کو ایک بار پھر ووٹروں کی  بھرپور شرکت متوقع ہے۔ اگر  69 سالہ ایردوان جیت گئے تو وہ  2028 ء تک اقتدار میں رہ سکتے ہیں۔ تین بار بطور وزیر اعظم اور دو مرتبہ صدر رہنے کے بعد قدامت پسند اور مذہبی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے سربراہ اور راسخ العقیدہ مسلمان ایردوآن پہلے ہی ترکی کے سب سے طویل عرصے تک برسر اقتدار رہنے والے رہنما ہیں۔

چودہ مئی کا الیکشن ایک  پہلا ایسا انتخابی معرکہ  تھا، جس میں ایردوآن مکمل فتح حاصل نہیں کر پائے تھے۔ ناقدین ایردوآن کی غیر روایتی اقتصادی پالیسیوں کو آسمان سے چھوتی مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، جس نے ترکی میں ضروریات زندگی کے بحران کو ہوا دی ہے۔ بہت سے لوگوں نے ترکی میں فروری کے مہینے میں آنے والے تباہ کن زلزلے میں پچاس ہزار سے زائد  افراد کی ہلاکت پر ابتدائی سست ردعمل کے لیے بھی ان کی حکومت کو  قصور وار ٹھہرایا تھا۔

اس کے باوجود ایردوآن نے قدامت پسند رائے دہندگان کی اپنے لیے حمایت برقرار رکھی، جو ملک میں اسلام پسند روایات کو فروغ دینے اور عالمی سیاست میں ملک کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے لیے ایردوآن کی پالیسیوں کے حامی ہیں۔

Türkei Wahlen Ahmet Yener, Leiter der Wahlkommission
ترکی کے اعلیٰ انتخابی بورڈ کے سربراہ احمد ینیر تصویر: Cagla Gurdogan/REUTERS

مہنگائی سے متاثر ووٹروں کو راغب کرنے کی کوشش میں انہوں  نے ترکی کی مقامی دفاعی صنعت اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کی نمائش کرتے ہوئے اجرتوں، پینشن اور بجلی اور گیس کے بلوں میں سبسڈی میں اضافہ کیا۔ انہوں نے اپنی دوبارہ انتخابی مہم کو زلزلے سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو کے وعدے سے بھی جوڑا، جس میں سال کے اندر اندر تین لاکھ انیس ہزار مکانات کی تعمیر بھی شامل ہے۔

کلیچ دار اولو ایک نرم مزاج سابق بیوروکریٹ ہیں، جنہوں نے سن 2010 سے سیکولر ریپبلکن پیپلز پارٹی، یا سی ایچ پی کی قیادت سنبھال رکھی  ہے۔ انہوں  نے اپنی انتخابی مہم  ملک میں جمہوریت کی مکمل بحالی، مزید روایتی پالیسیوں کی طرف لوٹتے ہوئے معیشت کی بحالی اور مغرب کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے وعدوں پر مرکوز رکھی۔

انہوں نے صدارتی انتخاب کے دوسرے مرحلے میں قوم پرست ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں ملک سے  پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کا عزم ظاہر کیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ  اگر وہ منتخب ہو گئے تو کرد عسکریت پسندوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے امن مذاکرات نہیں کریں گے۔

ترکی میں بہت سے شہری پڑوسی ملک شام میں جنگ سے فرار کے بعد ترکی کے عارضی تحفظ میں آئے ہوئے لاکھوں شامی پناہ گزینوں کو ملک پر بوجھ سمجھتے ہیں اور ان کی ان کے وطن واپسی بھی انتخابات میں ایک اہم موضوع بن چکی ہے۔

Türkei Wahlen Sinan Ogan und Recep Tayyip Erdogan
سینان اوآن نے رواں ہفتے کے آغاز پر صدر ایردوآن کی حمایت کا اعلان کیا تھاتصویر: Turkish Presidency via AP/AP Photo/picture alliance

چودہ مئی کے انتخابات میں تیسرے نمبر پر آنے والے قوم پرست سیاست دان سینان اوآن  نے رواں ہفتے کے آغاز پر صدر ایردوآن کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اوآن نے غیر متوقع طور پر 5.2 فیصد  ووٹ حاصل کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔ تاہم اوآن کے اتحاد میں شامل ایک کٹر مہاجر مخالف ظفر پارٹی نے کلیچ دار اولو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔

کلیچ دار اولو کی ایردوآن کے ہاتھوں شکست ان کے انتخابی نقصانات کی طویل فہرست میں مزید اضافہ کر دے گی اور ان پر پارٹی چیئرمین کے عہدے سے دستبردار ہونے کے لیے دباؤ بڑھ جائے گا۔

ایردوآن کی حکمران جماعت اے کے پی اور اس کے اتحادی چودہ مئی کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات  میں اکثریت حاصل کر چکے ہیں۔ اس لیے اب پارلیمانی انتخابات  دہرائے نہیں جائیں گے۔ ایردوآن کی پارٹی نے زلزلے سے متاثرہ گیارہ میں سے دس صوبوں میں بھی کامیابی حاصل کی۔ ان علاقوں میں روایتی طور پر صدر ایردوآن کی حمایت موجود رہی ہے۔

پچھلےانتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی صدر ایردوآن  پر ووٹروں تک پہنچنے کے لیے ریاستی وسائل اور میڈیا پر اپنے کنٹرول کو استعمال کرنے کا الزام بھی لگا۔

یہ انتخابات ایک ایسے وقت منعقد کیے گئے، جب سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ملک نے بطور جمہوریہ اپنے قیام کی 100 ویں سالگرہ منائی ہے۔

ش ر ⁄  م م (اےپی)

ترک الیکشن: کیا ایردوآن متحد اپوزیشن کو شکست دے سکیں گے؟